ایران کا میزائلی پروگرام اور یورپ کے ساتھ صدر روحانی کی اتمام حجت
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے یورپی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ ایران کی دفاعی صلاحیت پر کسی طرح کے مذاکرات نہیں کئے جا سکتے-
صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بدھ کی شام اپنے دورہ سمنان کے موقع پر کہا کہ اگر یورپ، میزائلی پروگرام کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہے تو یہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ دفاعی صلاحیت ، ملک کے دفاع کے لئے ہے-
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی اس سلسلے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ملک ایران جیسے خودمختار اور بڑے ملک سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے دفاع کے لئے ہتھیار نہیں رکھ سکتا -
آج کل امریکی حکام نے ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ کے لئے کسی طریقہ کار کے حصول کے بارے میں ایران و یورپ کے درمیان سمجھوتے کے موقع پر نیا کھیل شروع کردیا ہے تاکہ اس تعاون اور سمجھوتے کو نقصان پہنچا سکیں-
امریکی وزیرخارجہ کا یہ دعوی کہ ایران کے میزائلی تجربات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے منافی ہیں ، بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ قرارداد بائیس اکتیس میں اس کی جانب کوئی اشارہ تک نہیں کیا گیا ہے اور صرف ایران سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایٹمی وارہیڈز نصب کرنے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل نہ بنائے- اور ایران ہرگز ایٹمی وار ہیڈز کی صلاحیت رکھنے والے میزائل بنانے کی جانب آگے نہیں بڑھ رہا ہے اور ایرانی میزائل معمولی قسم کے اور گائیڈڈ ہیں اوراس کا مقصد دشمنوں کے خطرات کے مقابلے میں ایران کی دفاعی طاقت کو مضبوط بنانا ہے-
امریکہ کی جانب سے اس موضوع کو اٹھانے کا مقصد ایٹمی سمجھوتے اور قرارداد بائیس اکتیس پرعمل درعمل درآمد کے سلسلے میں واشنگٹن پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں پرپردہ ڈالنا ہے تاہم اس سے واشنگٹن کی ذمہ داریاں کم نہیں ہوں گی - برطانیہ و فرانس کے تعاون سے ایران کے میزائلی پروگرام کا جائزہ لینے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے امریکہ کے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کہ جو ناکام ہوچکی ہے ، ذمہ داریاں نبھانے میں امریکہ کی خلاف ورزی کو چھپا نہیں سکتی اور امریکہ سلامتی کونسل کی قرارداد کی پابندی نہ کرکے اپنی ذمہ داریوں سے فرار نہیں کر سکتا-
امریکی وزیرخارجہ کے دعوے کے موقع پر ہی انٹرنیشنل اسٹریٹیجک اسٹڈیز سینٹر کے سربراہ مارک فیٹزپیٹریک نے تاکید کی کہ ایران کے میزائلی تجربات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی نہیں ہیں - فیٹزپیٹریک نے مزید کہا کہ یہ قرارداد اقوام متحدہ کے تمام اراکین سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے پرہیز کریں جو ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کو کمزور کرتے ہوں جبکہ امریکہ نے اس کی خلاف ورزی کی ہے-
ایران کے میزائلی پروگرام کو محدود کرنا امریکہ کا دائمی مقصد رہا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کی حکومت بہت کوشش کر رہی ہے کہ مختلف ڈراموں سے اس مقصد کو حاصل کر لے -
ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کا یہی مقصد ہے کہ ایران کے میزائلی پروگرام کو محدود کر دیا جائے اور اس وقت یہ پالیسی ، ایرانوفوبیا پھیلانے اور ایران پر پابندی لگانے کے لئے یورپیوں کو اغوا کر کے حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس کے لئے سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد کیا گیا لیکن وہاں بھی امریکہ اور اس کے حامیوں کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں-
ان حالات میں یورپ کو امریکہ کے کھیل میں شامل نہیں ہونا چاہئے اور اس وقت یورپ کی تاریخی ذمہ داری ایٹمی سمجھوتے کو موجودہ صورت حال سے باہر نکالنا ہے- یورپیوں کا امریکہ کے ساتھ شامل ہونا ان کے متضاد رویّے کی علامت ہے کیونکہ سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس میں ایران کو میزائلی تجربات سے منع نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کے برعکس تمام ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اٹمی سمجھوتے کی پابندی کریں-
میزائلی پروگرام میں ایران کا رویہ پوری طرح منطقی اور اصولی ہے اور جو ملک ڈرامے بازی سے ایران کی دفاعی صلاحیت کو محدود کرنا چاہتا ہے وہ یورپ کے ایٹمی سمجھوتے کو خراب کرنے کے لئے برا رویہ اختیار کررہا ہے-
اس وقت تشویش کی بات مغربی ایشیا کے علاقے میں بدامنی کا تسلسل ہے کہ جس میں ایران کے میزائلی پروگراموں کا کوئی کردار نہیں ہے کیونکہ اس نے اب تک کسی ایک بھی عام شہری کو نشانہ نہیں بنایا ہے - امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی دہری پالیسیوں اور مغربی ایشیا کے علاقے میں بدامنی پرتشویش میں گہرا رابطہ ہے کیونکہ ایران کے میزائلی پروگرام کی مخالفت کے ساتھ ہی اس علاقے میں بعض عرب حکومتوں کے لئے ہتھیار بھیجنے کا سلسلہ قائم ہے اور اسی رویہ کی وجہ سے مغربی ایشیا کے علاقے میں بدامنی جاری ہے-