یورپ اور تارکین وطن
تحریر : ڈاکٹر آر نقوی
یورپی ممالک کیطرف سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کی مطابق یورپ میں میں داخل هونے والے دس لاکھ پناه گزینوں میں ستائیس فیصد کم عمر ہیں جو قانونی طور پر بھی ابھی بالغ نہیں ہیں اور وه اپنے والدین یا سرپرست کے بغیر یورپی ممالک کی سرحدوں پر پهنچے ۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد باقاعده رجسٹرڈ بھی نهیں هوئی هے اور انهیں لاپته افراد میں سے شمار کیا جاتا هے.
اگست 2015 میں ایک پناه گزین بچے آیلان کی تصویر میڈیا میں سامنے آئی یه بچه بحرالکایل کے ساحلوں پر اوندھے منه پڑا هوا هے اور اسکی لاش ساحل پر بےیار و مددگار نظر آ رهی هے. اس بچے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وسیع سطح پر دنیا بھر میں دیکھی گئی جس نے هر صاحب دل کے جذبات کو متاثر کیا یهاں تک که انڈیپنڈنٹ اخبار نے یهاں تک لکھا که اگر یه تصویر اهل یورپ کو پناه گزینوں کے حوالے سے بیدار نهیں کر سکتی تو پھر کونسی چیز انهیں متاثر کرے گی.
لوزوند اخبار نے اس تصویر کو یورپی ممالک کے افراد کے ضمیر کو جگانے والی تصویر قرار دیتے هوئے لکھا هے یه تصویر بڑی تیزی سے تمام اخبارات و جرائد میں نشرهوئی هےیہ پناه گزینوں کے ساتھ نسلی برتاؤ کی علامت میں تبدیل هو گئی هے.
کنیڈا کے ایک سیاست دان فیلپ کوپر نے اس تصویر پر تبصره کرتے هوئے لکھا هے " کیا همارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لیے اسطرح کی تصاویرضروری هیں" . کنیڈا وه ملک هے جس نے اس بچے کے والد کی پناه لینے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا جسکی وجه سے یه چار افراد پر مشتمل خاندان سمندر کے زریعے یورپ جانے پر مجبور هو گیا. یه تکلیف ده سانحه اس وقت پیش آیا جب انکی کشتی ترکی سے یونان کے جزیره کا س کی طرف جا رهی تھی اور آبگاں کے پانیوں میں الٹ گئی. آیلان اپنی ماں اور دوسرے بھائی کے همراه سمندر میں ڈوب گیا.
یه تصویر دوسری جنگ عظیم کے بعد پناه گزینوں کے سب سے بڑے بحران کی علامت کے طور پر دنیا بھر میں معروف هو گئی۔ پناه گزینوں کے حوالے سے مغرب کی دوهرے روئیے اور انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے مختلف معیارات اب یورپی ممالک کی سرحدوں کے اندر بھی پہنچ گئے هیں یہی وجه هے که اب یه مسئله یورپی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا هے.
پناه گزینوں کے حوالے سے سب سے زیاده مسائل بچوں سے متعلق هیں. اور بچے یورپی ممالک کے رویوں کی بھینٹ چڑھ رهے هیں. یورپ جانے والے سخت گزار راستے اور یورپی ممالک تک پہنچنے کے لیے جو مشکلات در پیش هیں وه بچوں کے لیے سب سے زیاده تکلیف ده هیں اورانکی جسمانی ناتوانی کی وجہ سے ناقابل برداشت ہیں.
حقیقت یه هے که مغربی ممالک کے حکام پناه گزینوں بالخصوص بچوں کے خلاف انجام پانے والے ان غیرانسانی اقدامات پر خاموش هیں یا انهیں نظر انداز کر رهے هیں اور اس حوالے سے کسی طرح کی ذمه داری ادا کرنے کے لیے تیار نهیں هیں یهاں تک که پناه گزین بچے اور انکے والدین اس خوف و هراس کے ماحول سے باهر نکلنے کے لیے یورپ کو خیر باد کہنے پر تیارهیں.