Feb ۱۸, ۲۰۱۷ ۲۰:۴۷ Asia/Tehran
  • کام و کوشش اور رزق (حصہ اول)

تحریر : حسین اختررضوی

اسلامی تعلیمات میں خداوندعالم پر توکل و بھروسہ  کرنے اور اس کی  رزاقیت پر یقین اور ایمان و عقیدہ رکھنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ غلط تصور پیدا ہوگیا کہ  خدا وند عالم پر توکل یا اس کے رازق ہونے کا عقیدہ کام اور محنت وکوشش کے بارے میں کی گئی تاکید کے منافی ہے مثال کے طور پر سورہ ہود کی چھٹی آیت میں ذکرہواہے کہ زمین پر چلنے والی کوئی بھی مخلوق ایسی نہیں ہے جس کا رزق خدا کے ذمہ نہ ہو ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر خدا وند عالم نے مخلوقات کے رززق کا وعدہ کیا ہے تو انسان اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خود کو زحمت میں کیوں ڈالتا ہے ؟  اس مسئلے کی وضاحت کے بارے میں مفکر اسلام شہید آیت اللہ مرتضی مطہری اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ اگر خدا وند عالم کو اس کے حق کی معرفت کے ساتھ پہچانیں اور اپنی توانائی کے  مطابق اس کے اعلی صفات سے آشنا ہوجائیں تو  اس وقت یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ خدا وند عالم کی رزاقیت  پر یقین انسانی فرائض اورحقوق کی ادائگی کے منافی نہیں  ہے ۔

 خدا وند عالم نے قرآن کریم میں خود کو رازق قرار دیا ہے لیکن  کام اور محنت کی بھی تاکید کی ہے،خدا کی رزاقیت کے معنی یہ ہیں کہ ہر مخلوق وسائل و امکانات ، توانائیوں اور صلاحیتوں سے آراستہ ہے جو اس کی  ایک معین  راستے کی طرف رہنمائی اور مدد  کرتی ہیں مثال کے طور پر جب پیڑ پودے جڑوں کے ذریعے زمین اور خاک کے اندر سے  پانی  اور نمک  کو جذب کرتے ہیں یا حیونات اور جانور اپنا  جب  پیٹ بھرنے کے لئے  شکار کرتے ہیں تو یہ توانائیوں کا استعمال خداوندعالم کی رزاقیت کا مظہر ہے۔ خداوند عالم نے ہر جاندار کو طرح طرح کی  خواہشات اور  رغبتوں کے ساتھ پیدا  کیا ہے اور وہ  خود اپنی ضروریات کی تلاش میں جاتاہے اور اپنی  خواہشات کو  پورا  کرنے کی کوشش کرتاہے۔

  خداوند عالم  قرآن کریم میں فرماتا ہے  کہ زمین  پر چلنے والی  ہر مخلوق کا  رزق اس کے ذمہ ہے یعنی اگر خداوند عالم  رزق کی ضمانت نہ لیتااور حصول کے وسائل فراہم  نہ کرتا تو مخلوقات کے اندر  کام اور محنت کی طرف کوئی خواہش  و رغبت نہ ہوتی  اور نہ ہی کوئی جذبہ  پایا جاتا ۔ انسان کو بھی اپنے حقوق کی حفاظت کی کوئی خواہش نہ ہوتی ،خداوندعالم نے اشرف المخلوقات ہونے کی حیثيت  سے زیادہ امکانات و وسائل انسان کے اختیار میں قرار دئیے ہیں ۔ انسان عقل کی نعمت سے بہرہ مند ہے۔

انسان کو چاہئیے کہ وہ اپنی  تمام  تر صلاحیت و استعداد کو استعمال کرکے اپنی زندگی کی تمام تر ضروریات کی تکمیل کی  کوشش کرے ۔ خدانے انسان کو  اپنی رزاقیت کے  اعلان کے ساتھ رزق و روزی کے حصول میں دلچسپی  رکھنے والا بنایا ہے۔لہذا کہا  جاسکتاہے کہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے عقل  و ہوش اور توانائی کی مانند امکانات و وسائل سے بہرہ مند ہونا الہی  رزاقیت کی نشانی و علامت ہے ۔

خداوند عالم رزق و روزی دینے والا ہے لیکن کائنات پر حکمفرما  فطری قوانین  کے برخلاف ایک قانون  یہ ہے کہ مخلوقات کے لئے زیادہ تر امکانات و وسائل جد وجہد اور سعی و کوشش کے ذریعے فراہم ہوتے ہیں ،اکثرمواقع  پر انسان کا کسی  نعمت سے بہرمند ہونا خود اس کی  کوشش اور کام کاج کانتیجہ ہوتاہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور آپ کے اہلیبت علیہم السلام نے قول  و عمل دونوں کے ذریعے  کام اور محنت وکوشش  پر تاکید کی ہے اور خود بھی رزق کی فراہمی  کے لئے کوشش کرتے تھے اور بہت زیادہ  محنت ومشقت سے کام لیتے تھے ، فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ایک دن اپنے کھیت میں کام کررہے تھے کہ علی بن ابی  حمزہ نامی شخص  نے آپ  کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ اے فرزند رسول آپ اس کام کو دوسروں  کے سپرد کیوں نہیں کردیتے ؟ امام  علیہ السلام نے فرمایا  کہ اپنا کام دوسروں سے کیوں کرواؤں ؟  جب کہ مجھ سے بہتر افراد  نے ہمیشہ اس طرح کے کام انجام دئیے ہیں  علی بن حمزہ  نے پوچھا میرے مولا آپ  کن لوگوں کے بارے میں فرمارہے ہیں ؟ امام علیہ  السلام نے فرمایا :  ہمارے جد امجد رسول  خدا صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم اور  علی بن ابی طالب اور ہمارے تمام آباء واجداد علیہم السلام زراعت کیا کرتے تھے ۔ زراعت اورگلہ  بانی کی مانند کام کرنا  خدا  کے انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام  نیز خدا وند عالم کے نیک اور صالح  بندوں کی ہمیشہ سیرت رہی ہے ۔

فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب  سورہ طلاق کی دوسری اور تیسری آیتیں نازل ہوئيں کہ جس میں خداوندعالم فرماتاہے ۔ جو بھی خدا سے ڈرتا ہے اللہ اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا اسے  خیال بھی نہیں ہوتا ۔ تو رسول خدا صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابیوں نے اس کا غلط مطلب  نکال کر  کر کام کرنا چھوڑدیااور عبادت و دعامیں مشغول ہوگئے، جب  پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو اس بات کی خبر ملی  تو آپ نے فرمایا کہ میں اس شخص کو دشمن رکھتا ہوں  جو دعا کے  لئے اس حال میں  اپنی زبان کھولے اور گڑگڑائے کہ پرورگارا مجھے رزق عطا کرکہ اس نے  کام  کاج کرنا چھوڑ رکھا ہو۔ اسی طرح  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: میری امت میں ایک گروہ  ہے جس کی دعا قبول نہیں ہوگی اسی طرح اس شخص کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی جوگھر میں بیٹھ کر کہے  پروردگارا مجھے رزق عطا کر لیکن کام  کاج کے لئے اپنی  جگہ سے حرکت نہ  کرے ۔

 

 

 

ٹیگس