کام و کوشش اور رزق (حصہ دوم)
تحریر : حسین اختررضوی
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی پرنور و بابرکت زندگی میں ملتا ہے کہ جب بھی آپ حکومت کے کاموں سے فراغت پاتے تھے تو لوگوں کے امور کے فیصلے کرتے یا درس و تدریس میں مشغول ہوجاتے تھے اس کے علاوہ زراعت بھی کرتے تھے ،آپ نے کجھوروں کے بہت سے باغات لگائے تھے ،آپ نے مدینہ منورہ کے مغربی علاقے میں ایک کنواں کھودا کہ جس سے پانی کے سوتے پھوٹ پڑے ، گرم ہوا چلنے کی وجہ سے یہ علاقہ کام کرنے کے لئے بہت زیادہ سخت تھا ، اس لئے کوئی بھی اس علاقے میں زراعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا مگر امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اس علاقے کی زمین خریدی اور اس علاقے کی زمنیوں کو آباد کرنے میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کی یہ مشکلات اور دشواریاں آپ کے کام میں روکاوٹ نہیں بن سکیں۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اس علاقے میں کہ جس کا نام " ینبع " تھا دس کنویں کھودے اور کجھوروں کے بہت سے درخت لگائے۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اپنی زندگی میں سعی و کوشش اور مجاہدت کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ میں سخت بھوک میں مبتلا ہوا کام کاج کی تلاش اور حستجو میں گھر سے باہر نکلا تو مدینہ منورہ کے اطراف میں ایک عورت کو دیکھا کہ سوکھی مٹی کا ایک ڈھیر جمع کئے ہوئے ہے اور اسے پانی میں بگھونا چاہتی ہے میں اس کے قریب گيا اور کہا کہ اگر تو اجازت دے تو میں یہ کام تیرے لئے انجام دے سکتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ پانی کے ہرڈول کے بدلے ایک کجھور اجرت کے طور پر تو مجھے دے گي ۔امیرالمؤمنین فرماتے ہیں کہ وہ عورت راضی ہوگئی اور میں نے کنویں سے سولہ ڈول پانی نکالا ،میرے ہاتھوں ميں چھالے پڑگئے ، اس عورت نے اجرت کے طور پر مجھے سولہ کجھوریں دیں ،میں کجھوریں لے کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور پھر ہم دونوں نے وہ کجھوریں کھائيں ۔ امام علیہ السلام کی یہ سیرت ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہمیں رزق کی تلاش میں اپنے گھروں سے باہر نکنا چاہیئے نہ کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گھر میں بیٹھے رہیں کہ خدا تو روزي دے گا ہی ، نہیں بلکہ ہمیں رزق کے حصول کے لئے ہمشیہ سعی و کوشش کرنا چاہئیے ۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام ایک مقام پر فرماتے ہیں :مؤمن ہمیشہ کام میں مشغول رہتا ہے جو کام کرتاہے اس کی طاقت میں اضافہ ہوتاہے ، رزق اسباب کا حامل ہوتا ہے لہذا رزق حاصل کرنے کے لئے عمدہ اور پسندیدہ عمل کریں انسان کو چائیے کہ وہ صحت و تندرستی اور سستی و کاہلی دونوں حالتوں میں کام کاج اور محنت سے ہاتھ نہ اٹھائے کیونکہ سستی و کاہلی آخرت کو تباہ و برباد کردیتی ہے ۔ بزرگان دین کی سیرت اور دین اسلام میں کام کاج اور محنت کی خاص اہمیت ہے ۔ امیر المؤمین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : بلاشبہ جو لوگ صنعت و حرفت میں امانتداری سے کام لیتے ہیں خداوند عالم انھیں دوست رکھتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رزق کے حصول کے بارے میں کہ بہترین اجر و ثواب محنت کشوں کو نصیب ہوتا ہے فرماتے ہیں: جو بھی شخص زحمت اور محنت سے حق اور حلال کی روزی کھائےگا اس کے لئے بہشت کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اور وہ جس دروازے سے چاہے گا داخل ہو جائے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کام کے بارے میں علم وآگہی پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ مسلمہ طور پر جو لوگ اپنے کام کو مکمل آگہی اور مہارت کے ساتھ انجام دیتے ہیں وہ بہتر نتیجہ پاتے ہیں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں ابن مسعود نامی شخص سے فرماتے ہیں :اے مسعود جب تم کام کے لئے تیار ہوتے ہو تواسے علم وآگہی کے ساتھ انجام دو اورکسی بھی کام کو بغیر علم وآگہی اور توجہ کے انجام دینے سے پرہیز کرو ۔یقینا جو شخص بھی اپنے امور کے حقائق اور اس کے ماحصل کے بارے میں غور و فکر کرکے اس کام کو انجام دے گا وہ ہمیشہ بہترین نتیجے پر پہنچے گا اور اس کی محنت رنگ لائے گی اور وہ پاکیزہ رزق خود بھی کھائے گا اور اپنے بچوں کو بھی کھلائے گا ۔