کسی کی توہین کرنا، نازیبا الفاظ کہنا اور گالیاں دینا، اہل بیت علیہم السلام کی سیرت نہیں!
إِنِّي أَكْرَهُ لَكُمْ أَنْ تَكُونُوا سَبَّابِينَ وَ لَكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ أَعْمَالَهُمْ وَ ذَكَرْتُمْ حَالَهُمْ كَانَ أَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وَ أَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ وَ قُلْتُمْ مَكَانَ سَبِّكُمْ إِيَّاهُمْ اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمَاءَنَا وَ دِمَاءَهُمْ وَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وَ بَيْنِهِمْ وَ اهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَهُ وَ يَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ وَ الْعُدْوَانِ مَنْ لَهِجَ بِهِ.
ترجمہ:
جب امیر علیہ السلام نے جنگ صفین کے زمانہ میں اپنے بعض اصحاب کے بارے میں سنا کہ وہ اہل شام کو گالیاں اور برا بھلا کہہ رہے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا:
میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے بن جاؤ۔بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کا تذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ خدایا! ہم سب کے خون کومحفوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کے راستے پر لگادے تاکہ ناواقف لوگ حق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے باز آجائیں۔
نہج البلاغہ،خطبہ204.