عالمی سطح پر ایران کے تعلقات بڑھنے سے نتن یاہو کو تشویش
صیہونی حکومت نے ایران کے ایٹمی سمجھوتے سے مایوس ہونے کے باعث ترکی کا دامن تھاما ہے-
المانیٹر انٹرٹیٹ ویب سائٹ نے انتیس جنوری کو " اسرائیل کو اس وقت ترکی کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ کیوں ہے " کے زیر عنوان ایک مقالے میں لکھا ہے کہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اس ہفتے یورپ کا تاریخی دورہ کیا - صدر روحانی کو کہ جن کے اس دورے میں تقریبا سو سے زیادہ ایرانی تاجر بھی ان کے ہمراہ تھے، اٹلی میں کافی عزت و احترام دیا گیا - صدر روحانی نے روم میں اٹلی کے وزیر اعظم ماتیو رنیزی اور پھر کیتھولیک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پاپ فرانسس سے ملاقات کی-
صدر روحانی ، اٹلی کے بعد فرانس گئے تاکہ الیزہ محل میں اس ملک کے صدر فرانسوا اولاند سے ملاقات کریں- پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد سے ایران کی منڈی خریداروں اور گاہکوں سے بھری ہوئی ہے اور سب کے سب ایران کے ساتھ کروڑوں ڈالر کے معاہدے کرنے کے لئے بے تاب ہیں-
المانیٹر کی رپورٹ کے مطابق سب سے اہم موضوع جو نتن یاہو کے لئے باعث تشویش ہے وہ ایران کے خلاف پابندیوں کی منسوخی روکنے میں ناکامی اور اس طرح کے معاہدے سے ایران کا ایک علاقائی طاقت میں تبدیل ہو جانا ہے-
شاید ابھی چند مہینے پہلے تک صیہونی حکومت سمیت بہت سے ممالک جو ایران کے خلاف امریکہ کی ماضی کی پالیسیاں جاری رکھنے کی امید لئے بیٹھے تھے ؛ ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کا یقین نہیں رکھتے تھے لیکن واشنگٹن جو ایران کے خلاف پابندیاں عائد اور ان کو عملی جامہ پہنانے اصلی ملک تھا پابندیوں کو برقرار رکھنے میں مایوسی کا شکار ہوا اور یہ مایوسی ، وہ آخری تیر تھا جو ایران کے سلسلے میں نتن یاہو کی کھوکھلی امیدوں پر مارا گیا-
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ، اسرائیل اور امریکہ کے بعض یورپی اتحادیوں نے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے- امریکہ نے تمام آپشن میز پر ہونے کی بات کی لیکن آخرکار وہ بھی معاہدے اور سمجھوتے کا آپشن اختیار کرنے پر مجبور ہوا- اس آپشن کو اختیار کرنے کی کئی واضح وجوہات تھیں - پہلی وجہ یہ تھی کہ جامع مشترکہ ایکشن پلان امریکہ سمیت دنیا کے چھ بڑے اور طاقتور ملکوں کے ساتھ ہونے والا ایٹمی سمجھوتہ تھا کہ جس کا فریق صرف امریکہ نہیں تھا- لہذا اس سمحھوتے پر عمل درآمد کا عزم پیدا ہوا- کیونکہ ایران کے ساتھ سمجھوتہ علاقے اور عالمی برادری کے مفاد میں ہے اور اس سے سبھی کو فائدہ ہوگا-
لیکن اسرائیل اپنے طرز فکر کے پیش نظر علاقے میں کشیدگی چاہتا ہے اور اسے امید ہے کہ وہ ترکی سے قریب ہوکر ایران کے خلاف نئی صف بندی قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا- اسرائیل نے سعودی عرب کے سلسلے میں بھی یہی روش اختیارکر رکھی ہے- کچھ دنوں پہلے اسرائیلی حکام نے بعض عرب ممالک منجملہ ریاض کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کی خواہش ظاہر کی تھی جبکہ اسرائیل کے اصلی اتحادی بھی تکفیری و صیہونی داعش دہشت گرد گروہ کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں اور اس بنیاد پر سعودی عرب جیسے ممالک کے ساتھ اتحاد اور تعاون کو نقصاندہ سمجھتے ہیں-
مشرق وسطی میں صرف صیہونی حکومت کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور وہ جانتی ہے کہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں مبھم دعوے دب جانے کے بعد اب اسے اسرائیل کے ایٹمی خطروں کے بارے میں پائی جانے والی تشویش کا جواب دینا پڑے گا اور علاقے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقے کے منصوبے پر عمل درآمد کرنا پڑے گا-
دوسری جانب اسرائیل ایک غاصب اور جارح حکومت ہے اور اس کی بقاء کا واحد راستہ، علاقے میں بحران اور جنگ ہے- بنا برایں اسرائیلی حکام علاقے میں امن و امان کو اپنے نقصان میں سمجھتے ہیں- ان تمام دلائل اور شواہد کے پیش نظر اپنی موجودہ حالت کو برقرار رکھنے کے لئے اسرائیل کی واحد امید ان ممالک سے نزدیک ہونا ہے جو اسرائیل کے خیال خام میں اس کا ساتھ دے سکتے ہیں لیکن ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک نے بھی تجربے سے یہ سیکھ لیا ہے کہ ان کشیدگیوں کا جاری رہنا ان کے فائدے میں نہیں ہے – ترکی ، شام میں اپنی مداخلت اور سعودی عرب یمن میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے باعث بحران کا شکار ہے اور اصولی طور پر اسرائیل کو ان سے کچھ زیادہ امید نہیں رکھنا چاہئے- نتن یاہو کو اب سیاسی تنہائی اور دیوار سے لگائے جانے اور مزید شکست کا انتظار کرنا چاہئے-