بحرین میں آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کئے جانے کے بعد عوامی مظاہروں میں شدت
بحرین کی عوامی تحریک کے رہنما آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے ملک سے باہر جانے کی مخالفت کر دی ہے۔
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے کہا ہے کہ وہ ملک سے باہر جانے کے سلسلے میں آل خلیفہ حکومت کے ساتھ ہر طرح کی ثالثی کے خلاف ہیں۔ قابل ذکر ہےکہ بحرین کی حکومت نے اس ملک کے ممتاز مذہبی رہنما آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کر دی ہے۔ آل خلیفہ کا یہ اقدام شہری حقوق کی کھلی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے اور اس کے خلاف وسیع پیمانے پر رد عمل ظاہر کیا گیا ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کئے جانے پر مبنی آل خلیفہ حکومت کے فیصلے کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔
اس سلسلے میں گزشتہ رات بحرین کے ہزاروں باشندوں نے درّاز کے علاقے میں مظاہرہ کیا اور حکومت بحرین سے مطالبہ کیا کہ وہ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت ختم کرنے سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے۔ یہ مظاہرہ ایسی حالت میں کیا گیا کہ جب بحرین کی سیکورٹی فورسز نے درّاز کے علاقے کا شدید محاصرہ کر رکھا ہے۔
آیت الہ شیخ عیسی قاسم کے گھر کے باہر بھی عوام کا دھرنا جاری ہے جس میں علما بھی شریک ہیں۔
بحرین کے علماء نے تاکید کی ہے کہ اس ملک کے عوام نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ آیت الہے شیخ عیسی قاسم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے بحرینی حکومت کو اس طرح کے اقدام کے بارےمیں خبردار کیا ہے۔ بحرین کے ممتاز عالم دین آیت الہج شیخ عیسی قاسم پر آل خلیفہ حکومت کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ کے بعد عوامی اعتراضات میں شدت پیدا ہوگئی ہے جس کے پیش نظر اس ملک کی سیکورٹی فورسز نے درّاز علاقے میں حفاظتی تدابیر سخت کردی ہیں۔ درّاز کا علاقہ ہی آیت الہر شیخ عیسی قاسم کی جائے پیدائش ہے اور اسی علاقے میں ان کی رہائش گاہ بھی ہے۔ اس علاقے میں حالیہ دنوں کے دوران آل خلیفہ حکومت کی جانب سے آیت الہع شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کئے جانے کے خلاف عوام نے وسیع پیمانے پر احتجاج کیا۔
بحرین میں آل خلیفہ حکومت کے نامعقول اور تشدد آمیز اقدامات کے بعد اس ملک کی سیاسی صورتحال بہت کشیدہ ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آل خلیفہ حکومت گھٹن کے ماحول اور تشدد میں شدت پیدا کر کے ہر طرح کی صدائے احتجاج خاموش کرنے کے درپے ہے۔ اس سلسلے میں باخبر سیاسی مبصرین نے آل خلیفہ کے تشدد آمیز اقدامات کے منفی نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
بحرین میں آل خلیفہ حکومت کی جانب سے تشدد کئے جانے کے باوجود سنہ دو ہزار گیارہ سےعوام کے اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے اور آل خلیفہ حکومت سعودی عرب کے فوجیوں کی حمایت اور مغرب خصوصا امریکہ کی ہمہ گیر مدد کے ساتھ ان پرامن مظاہروں کو طاقت کے ذریعے کچلنے کے درپے ہے۔ واضح رہےکہ بحرین میں امریکہ کا فوجی اڈا بھی موجود ہے۔
بہرحال حالیہ دنوں میں آل خلیفہ حکومت کے خلاف بحرینی عوام کے مظاہروں کے نئے مرحلے سے اس ڈکٹیٹر حکومت کے دعووں کا کھوکھلا پن ایک بار پھر سامنے آگیا ہے۔ اس حکومت نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس کے تشدد آمیز اقدامات کے نتیجے میں بحرینی عوام کے احتجاجات اور اپنے لیڈر کے ساتھ ان کی وفاداری کم ہو رہی ہے۔
بحرینی عوام کے حکومت مخالف مظاہروں کے نئے مرحلے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ آل خلیفہ حکومت کی جانب سے قابض سعودی فوجیوں کی مدد کے ساتھ بھی بحرینی عوام پر کیا جانے والا تشدد ان کے ارادے میں خلل پیدا نہیں کرسکا ہے۔ واضح ہے کہ بحرین کے عوام اپنے ملک میں ڈکٹیٹر حکومت کے خاتمے اور عدل پر مبنی جمہوری حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔
ان حالات میں بحرینی عوام کی انقلابی تحریک جاری رہنے کی بنا پر آل خلیفہ حکومت کی قانونی حیثیت پہلے سے زیادہ خطرے سے دوچار ہوچکی ہے۔ اس صورتحال میں آل خلیفہ کے تشدد کا نتیجہ اس ملک میں بحران میں شدت پیدا ہونے اور مسلح جدو جہد کی جانب عوام کے رجحان کی صورت میں برآمد ہوگا جس کی وجہ سے آل خلیفہ حکومت کے لئے مشکل پیدا ہوجائے گی۔
بحرین کے حالات پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہےکہ آل خلیفہ حکومت عوامی مطالبات کا مقابلہ کر کے ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جو لیبیا کے سابق ڈکٹیٹر کرنل قذافی، مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک اور تیونس کے سابق ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کا راستہ ہے۔ اس راستے کی منزل عوام کے غصے کی آگ میں جلنے اور ذلیل و خوار ہونے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔