بحرین میں مخالفین کی بڑھتی ہوئی سرکوبی پر قانونی اداروں کا ردعمل
بحرین میں آل خلیفہ حکومت کی آمریت پر قانونی اداروں کی تنقید کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اب یہ تنقید، ان مغربی ملکوں کے قانونی اداروں نے بھی شروع کردی ہے جو اب تک بحرین کی آل خلیفہ حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کے سلسلے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔
اس بارے میں لندن کے الخلیج انسانی حقوق مرکز نے اس بات پر سخت انتباہ دیا ہے کہ منامہ، بین الاقوامی اداروں کے ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کا تعاون منقطع کروانے کی کوشش کر رہا ہے اور بحرینی شہریوں کے خلاف آل خلیفہ حکومت کا دشمنانہ اور جارحانہ رویہ بدستور جاری ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ صحافیوں کی عالمی تنظیم نے بھی بحرین میں نامہ نگاروں اور صحافیوں کے خلاف جارحانہ اقدامات عمل میں لائے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔ بحرین میں آٹھ جولائی کو انسانی حقوق کے تین سرگرم عمل کارکنوں کے بیرون ملک جانے پر پابندی، انسانی حقوق کے وکیل محمد التاجر کے غیر ملکی سفر پر بلاسبب پابندی اور اسی طرح تفتیش کے لئے انسانی حقوق کے سرگرم عمل کارکنوں کو حکومتی اداروں میں طلب اور ان پر بے بنیاد الزامات لگایا جانا، آل خلیفہ حکومت کے حارجانہ اقدامات کا ایک نمونہ ہیں۔
بحرین میں گذشتہ دو ماہ کے دوران انسانی حقوق کے سرگرم عمل کارکنوں اور تنظیموں کے اراکین کے بیرون ملک جانے پر پابندی کے کم از کم چوبیس واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ بحرین کی انسانی حقوق کی نگران تنظیم کی رکن اور جمعیت المعلمین کی نائب سربراہ جلیلہ السلمان کے اوسلو جانے پر پابندی بھی اس قسم کی عائد جانے والی پابندیوں کا ایک نمونہ شمار ہوتی ہے۔
بحرین کے انسانی حقوق مرکز کے سربراہ نبیل رجب کے بیرون ملک جانے پر پابندی اور متعدد بار انھیں جیل میں بند کیا جانا نیز دو ہزار چودہ سے اب تک حکومت کی جانب سے ان کے خلاف دائر کئے جانے والے مختلف مقدمات بھی آل خلیفہ حکومت کے تشدد و جارحانہ رویے کا ایک نمونہ ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ رواں سال کے دوران بحرین میں انسانی حقوق کے ایک اور سرگرم عمل کارکن عبدالہادی الخواجہ کو آل خلیفہ حکومت کے اسی طرح کے جارحانہ برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عالمی قانونی اداروں نے بحرین میں انسانی حقوق کے سرگرم عمل کارکنوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اراکین کے خلاف آل خلیفہ حکومت کی کارروائیوں اور مختلف عالمی اداروں خاص طور سے اقوام متحدہ کے ساتھ ان کے تعاون پر پابندی سے متعلق عمل میں لائے جانے والے اقدامات کی بارہا مذمت کی ہے اور بحرین کی حکومت سے ان افراد کے بیرون ملک جانے کی آزادی کی ضمانت اور اس ملک میں آزادی بیان کا پاس و لحاظ رکھے جانے نیز جیل میں بند انسانی حقوق کے سرگرم عمل کارکنوں کی غیر مشروط رہائی اور ان کی جان کا تحفظ کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران بحرینی شہریوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کو قانونی بنانے کے لئے آل خلیفہ حکومت کے جاری اقدامات اور انسانی حقوق کی وسیع پیمانے جاری کھلی خلاف ورزیاں، اس بات کا باعث بنی ہیں کہ بحرینی عوام نے حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔
جیساکہ چودہ فروری دو ہزار گیارہ سے اس ملک میں آل خلیفہ حکومت کے خلاف عوامی احتجاجات اور جارحانہ و وحشیانہ اقدامات کے مقابلے میں بحرینی عوام کی استقامت کا سلسلہ جاری ہے۔ بحرین کے عوام اپنے ملک میں جمہوریت و آزادی اور انصاف کے قیام کے خواہاں ہیں اس لئے کہ اس ملک کی آل خلیفہ حکومت نے آزادی بیان، ملک میں پرامن احتجاجات نیز سیاسی گروہ یا جماعت تشکیل دیئے جانے پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
بحرین کی حکومت پر کسی بھی طرح کی تنقید کرنے پر بھی پابندی ہے۔ اس ملک میں قانونی و سیاسی سرگرمیاں مکمل محدود ہیں اور اس ملک کے بہت سے شہریوں کو بحرین میں قانونی، سیاسی و اقتصادی اصلاحات کی ضرورت کے بارے میں کسی بھی قسم کا اظہار خیال کئے جانے پر آل خلیفہ کی عدالتوں میں قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بحرین میں آل خلیفہ حکومت کی جانب سے عمل میں لائے جانے والے اس طرح کے اقدامات سے اس کی ظالمانہ اور جارحانہ ماہیت آشکار ہوجاتی ہے۔ اس ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت حال اتنی ہی زیادہ سخت اور خراب ہے کہ کوئی بھی دیکھنے والا اپنے پہلے ہی مشاہدے میں ان خلاف ورزیوں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور انسانی حقوق کی موجودہ صورت حال سے اپنی نفرت و بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اس بات کا بحرین کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں میں بخوبی مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں جاری کی جانے والی تازہ ترین رپورٹوں میں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ بحرین میں انسانی حقوق کی صورت حال، دو ہزار سولہ میں اور زیادہ بدتر ہوئی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بات پرتاکید کی ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق بحرین کی آل خلیفہ حکومت کا کارنامہ، دنیا میں انسانی حقوق کا ایک سیاہ ترین کارنامہ ہے۔