بحرین میں عوامی تحریک حکومت ناکام
بحرین کی حکومت اس دلدل سے خود کو خارج کرنے کےلئے جو اس نے خود بنایا ہے دوسروں کو اپنے مسائل کا ذمہ دار ٹہرارہی ہے
بحرین کی حکومت اس دلدل سے خود کو خارج کرنے کےلئے جو اس نے خود بنایا ہے دوسروں کو اپنے مسائل کا ذمہ دار ٹہرارہی ہے۔ آل خلیفہ کے وزیر خارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران پر الزامات لگائے ہیں کہ ایران بحرین میں عدم استحکام اور بدامنی کا سبب ہے۔خالد بن احمد آل خلیفہ نے یمن پر جاری جنگ میں سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد میں شامل رہنے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آل خلیفہ کی حکومت یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ رہے گی۔ آل خلیفہ کے وزیر خارجہ کے ان بیانات میں واضح طریقے سے سعودی عرب کے اھداف اور امریکی اور صیہونی محرکات دیکھے جاسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب ملکوں کا اتحاد ایران کے خلاف سیاسی اھداف حاصل کرنے کی غرض سے وجود میں آیا ہے اور اب یہ خلیج فارس کے کچھ ملکوں کو استعمال کرکے اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب دراصل اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ وہ ایران سے براہ راست صف آرا ہونے کے بجائے کہ آل سعود کی حکومت میں اس کی ذرہ برابر جرات نہیں ہے بالواسطہ طریقے سے ایران کے خلاف اقدامات کرے۔ سعودی عرب یہ اچھی طرح سمجھ گیا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان یعنی ایٹمی معاہدے کےبعد اب ایٹمی حوالے سے ایران کے خلاف کسی طرح کے الزامات نہیں لگائے جاسکتے، اسی وجہ سے آل سعود نے متبادل سناریو بنانے پر اپنا پورا زور لگادیا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہےکہ سعودی عرب اور امریکہ علاقے میں بحران کے جاری رہنے میں ہی اپنے مفادات دیکھتے ہیں لھذا ایران کے خلاف نئے پروپگینڈوں میں براہ راست ملوث ہیں۔ سعودی عرب اس وقت شام کے بحران میں ایک ہارا ہوا کھلاڑی دکھائی دیتا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے دہشتگردوں کی ہمہ گیر حمایت کے نتیجے آخر کار آل سعود کے نقصان میں ہی برآمد ہوئے کیونکہ کشیدگی اور بحران کسی کے حق میں نہیں ہوتا اور تجربے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں نے علاقے میں ہمسایہ ملکوں کے درمیان امن و دوستی کی جگہ دشمنی پھیلانے کی کوشش کی آخر کار ان ہی کو نقصان اٹھانا پڑا۔ بحرین بھی ان ملکوں کے زمرے میں آتا ہے جنہوں نے سعودی عرب کے اکسانے پر غلط پلاننگ کرکے یہ سوچ رکھا تھا کہ وہ ایران کو اپنی مشکلات کا ذمہ دار قرار دے کر اپنی داخلی مشکلات سے رہائی پالے گا، نہ اس طرح کی الزام تراشی اور نہ ہی اس کی نام نہاد آہنی مکے کی پالیسیاں بحرینی عوام کو ان کی تحریک سے روک پائیں۔
بحرین کے حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ آل خلیفہ کی تشدد آمیز پالیسیوں کو پانچ برس گذرنے کے بعد اسے کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ آل خلیفہ کے ہاتھوں سیاسی رہنماوں پر مقدمہ چلانا، انہیں ملک بدر کرنا، انہیں شہریت سے محروم کرنا اور انہیں پھانسی کی سزا دینا یا عمر قید کی سزا دینا وہ اقدامات ہیں جو اس نے عوام کی تحریک کو دبانے کےلئے انجام دئے ہیں اور دے رہی ہے اور ان سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ بحرین کے حکام کی مشکل یہ ہے کو وہ حقائق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب بنیادی طور سے یہ نہیں چاہتے کہ علاقے کا کوئی بحران حل ہو کیونکہ خود انہوں نے ہی یہ بحران پیدا کئے ہیں۔دوسری حقیقت یہ ہے کہ اگر سعودی عرب کسی مشکل کو حل کرنے کے قابل ہوتا تو سب سے پہلے اپنے لئے کچھ کرتا جبکہ روز بروز اندرونی چیلنجوں سے روبرو ہوتا جارہا ہے اور اس کے اقتصادی مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں نیز پٹرو ڈالر اس کے ہاتھوں سے نکلتے جارہے ہیں۔سعودی عرب کو یمن کی جنگ میں بھی بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے۔سعودی عرب کی جنگی مشینری ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال کے باوجود اپنے اھداف کو نہیں پہنچ سکی ہے۔ اس کے علاوہ یمن میں بچوں کا قتل عام کرنے، جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے اور القاعدہ اور داعش اور جبھۃ النصرۃ کی پٹرو ڈآلر سے بھرپور مالی حمایت کرنے کی بنا پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے عالم میں بحرین کی جانب سے ایران کے خلاف پروپگینڈا کرنا اوربدامنی پیدا کرنے کا الزام لگانا ایک سیاسی لطیفے کی مانند ہے۔ یاد رہے بحرین کا وجود علاقے میں برطانوی سامراج کی مداخلتوں کا مرہون منت ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بحرین کی لفاظی ایسا ڈرامہ ہے جس سے حقائق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔