نتن یاہو کے دورہ باکو کے موقع پر اس ملک میں مذہبی امور کی انجام دہی پر پابندی
صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے دورہ باکو کے موقع پر جو تیرہ دسمبر کو انجام پانے والا ہے، جمہوریہ آذربائیجان کے دینی امور کی سرکاری کمیٹی نے سرکاری اداروں اور یونیورسٹیوں میں نماز ادا کئے جانے پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔
جمہوریہ آذربائیجان کے دینی امور کی حکومتی کمیٹی نے سرکاری اداروں اور یونیورسٹیوں میں نماز ادا کئے جانے پر اپنی مخالفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان میں سیکولر بالفاظ دیگر لادین حکومت قائم ہے اور اسی بناء پر کسی کو سرکاری اداروں اور تعلیمی مراکز میں نماز کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے دورہ باکو کے موقع پر جمہوریہ آذربائیجان کی حکومت نے ایسا اقدام کیا اور اسلام مخالف پالیسی کو اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے اور اسی پالیسی کے دائرے میں اعلان کیا گیا ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان خاص طور سے باکو کے تعلیمی مراکز میں زیر تعلیم ایسے طلباء کی فہرست تیار کی جائے جو ان تعلیمی مراکز میں نماز پڑھتے ہیں اور ان کی ریکارڈ فائل بھی تیار کی جائے۔ البتہ جمہوریہ آذربائیجان کے مختلف علاقوں سے موصول ہونے والی رپورٹوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسکول و مدارس میں پردے کے استعمال پر پابندی لگاتے ہوئے خواتین اساتذہ اور طلباء کو اس سلسلے میں خبردار کیا گیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ بارہ دسمبر سے کسی کو بھی پردے کے ساتھ اسکول اور دیگر تعلیمی مراکز میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ درحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب اقدامات، صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے دورہ باکو کے نتائج کا حصہ ہیں۔ الہام علی اف کی حکومت نے صیہونی حلقوں کی خوشامد میں اسرائیل کے اداروں سے بھی آگے بڑھ جانے کی کوشش کی ہے اور وہ اس بات کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ یہ ظاہر کرے کہ جمہوریہ آذربائیجان کے عوام، اسرائیل کو پسند کرتے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان کے عوام نے مختلف طریقوں سے اسرائیل کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کی برقراری اور ان تعلقات کو فروغ دیئے جانے پر بارہا اپنی مخالفت اور نفرت و بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ باکو کی حکومت نے غیر اسلامی اقدامات عمل میں لائے جانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دو ہزار تین میں جب سے جمہوریہ آذربائیجان میں الہام علی اف کی حکومت قائم ہوئی ہے، اس ملک میں مذہبی امور کی انجام دہی کے خلاف سختی برتی جارہی ہے۔ اس سے قبل اس ملک میں مساجد سے لاؤڈاسپیکروں سے اذان دیئے جانے پر پابندی، مساجد بند کرنے اور مساجد کی مسماری اور مذہب کی ترویج و تشہیرات پر پابندی، ایسے اقدامات ہیں جو جمہوریہ آذربائیجان کی حکومت کی جانب سے گذشتہ ایک عشرے کے دوران عمل میں لائے گئے ہیں۔ ایک کروڑ کی آبادی پر مشتمل جمہوریہ آذربائیجان میں اٹھانوے فیصد مسلمان ہیں اور تقریبا سبھی شیعہ اثنا عشری ہیں یہاں تک کہ اس ملک کے حکام بھی مذہب کے اعتبار سے مسلمان اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہرحال صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے دورہ باکو کے موقع پر جمہوریہ آذربائیجان کے شیعہ مسلمانوں پر حکومت کی جانب سے دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ تعلیمی مراکز میں پردے پر پابندی کا اعلان کئے جانے کے بعد بہت سے گھرانوں نے اسکولوں میں اپنی لڑکیوں کے نام لکھوانے سے گریز کیا ہے اور یہ اقدام درحقیقت اس ملک میں ناخوندگی کی شرح بڑھنے کا باعث بنا ہے۔ اس کے باوجود الہام علی اف یہ سوچتے ہیں کہ ان کے ملک کے عوام میں مذہبی رجحان نہیں پایا جاتا اور بعض مواقع پر اگر ایسا رجحان دیکھا بھی جاتا ہے تو وہ بیرون ملک سے ہونے والی ترویج و تشہیر کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ بے بنیاد تصور اور خام خیالی، ایسی صورت میں ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان میں مومنین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور موقع ملتے ہی اس ملک کے نوجوان، مساجد میں یومیہ نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی سلسلے میں حکومت میں پائی جانے والی تشویش اس بات کا باعث بنی ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان کے حکام نے عوام میں بڑھتے ہوئے مذہبی رجحان پر اپنی برہمی کا اظہار کیا ہے اور وہ لوگوں کو طاقت کے بل پر بے دین بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کی خوشامد کرنے کے باوجود جمہوریہ آذربائیجان کی حکومت کی کوئی ایسی کوشش کامیاب نہیں ہوسکے گی کہ جس کے نتیجے میں وہ اپنے ملک کے عوام کو بے دین بنا سکے۔ تاہم اس ملک میں مذہب کے خلاف زبردستی اقدامات عمل میں لائے جانے سے اگرچہ جمہوریہ آذربائیجان کے مسلمان عوام پر شدید دباؤ پڑے گا تاہم نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال سے حکومت، خود کو بھی نہیں بچا سکے گی۔