یورپ میں دہشت گردی کا فروغ
برطانیہ کی پولیس نے سلمان عبیدی کو مانچسٹر سٹی کے دہشت گردانہ حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے-
پولیس حکام کے مطابق مانچسٹر سٹی میں کنسرٹ کے دوران خود کش حملے میں ملوث مبینہ خود کش حملہ آور کا نام سلمان عبیدی ہے جو برطانیہ میں قیام پذیر تھا تاہم اس کا تعلق لیبیا سے ہے، مانچسٹر پولیس چیف کا کہنا ہے کہ سلمان عبیدی کی عمر 22 سال ہے اور اس کا خاندان لیبیا کے سابق صدر معمرقذافی کے دور میں برطانیہ آیا- واضح رہے کہ مانچسٹرارینا کے سٹی سینٹر میں امریکی گلوکارہ آریانا گرانڈے کے کنسرٹ میں دھماکے کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک جب کہ 60 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ یہ حملہ ، 2005 میں لندن میں انڈرگراؤنڈ ہونے والے حملے کے بعد سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ ہے - اس حملے میں پچاس افراد ہلاک ہوگئے تھے-
اس وقت یورپ منجملہ برطانیہ کو داخلی سطح پر پنپنے والی دہشت گردی کا سامنا ہے- چند سال قبل تک یورپ کے ملکوں میں زیادہ تر دہشت گردانہ حملے ان دہشت گردوں کے توسط سے انجام پاتے تھے جو یورپی ملکوں میں باہر سے آتے تھے اور انہیں غیرملکی شمار کیا جاتا تھا کہ جو ان کے گمان کے مطابق غیرملکی دشمنوں کو نابود کرنا چاہتے تھے- یورپ کے سیکورٹی اور انٹلی جنس ادارے بھی ان کی شناخت اور ان غیر ملکی دہشت گردوں سے مقابلے کی پوری توانائی رکھتے تھے - یورپ کے سیکورٹی حکام کے مطابق حالیہ برسوں میں کئی بار دہشت گردانہ حملوں کو ناکام بنایا گیا ہے-
لیکن اب بعض افراد جو یورپی معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں ، وہ اپنے بدن میں بم باندھ کر یورپی شہریوں کو موت کے منھ میں بھیج رہے ہیں- سلمان عبیدی ایک جوان تھا کہ جو برطانیہ میں پیدا ہوا اور اس ملک میں فوجی ٹریننگ حاصل کی اور یورپی معاشرے میں پلا بڑھا ہے- البتہ انحرافی افکار، دین سے غلط استفادے اور سماجی و ثفافتی مسائل نے، ان یورپی جوانوں کو قتل عام ، تشدد اور دہشت گردی کی جانب مائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے- اس کے ساتھ ہی، اس بات سے قطع نظرکہ کیا عوامل سبب بنتے ہیں کہ ایک برطانوی یا فرانسیسی یا جرمنی کا جوان اپنے وطن اور ملک کے باشندوں کو قتل کرتا ہے، ایک ناقابل انکار نکتہ یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کے اندر دہشت گردی پنپھ رہی ہے اور یہ دہشت گردی بیرون ملک سے ہونے والی دہشت گردی سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور نامعلوم ہے-
یورپ اور امریکہ کے سیکورٹی اور انٹلی جنس ادارے برسوں سے اس چیز سے کہ جسے مغربی ایشیاء کے علاقے میں دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے بخوبی آشنا ہیں اور انہیں اس سلسلے میں بہت زیادہ تجربہ بھی ہے - یورپ کی سرحدوں حتی شینگن کے رکن ممالک کی بھی سرحدوں پر سخت سیکورٹی کےانتظامات نے غیرملکی دہشت گردوں کے یورپ میں داخلے کی روک تھام کی ہے تاہم وہ سیکڑوں جوان، جو انحرافی افکار ، تشدد پسندی اور دہشت گردی میں آلودہ ہوچکے ہیں اور روزانہ مختلف اجتماعی مراکز میں آمد و رفت رکھتے ہیں، ان کی شناخت سیکورٹی اور انٹلی جنس طاقتوں کے لئے بہت دشوار ہوگئی ہے -
یہ افراد بم بنانے کے طریقے کوآسانی سے انٹرنیٹ سے حاصل کرلیتے ہیں اور پھر تباہ کن ہتھیاراور آلات بناتے ہیں - اس لحاظ سے کہ یہ افراد یورپ میں پیدا ہوئے ہیں اور برسوں سے یورپی معاشروں میں زندگی گذار رہے ہیں اس لئے کسی مشکل کے بغیر اور کسی توجہ کا مرکز بنے بغیر کلبوں ، میٹرو اسٹیشنوں اور دیگر اجتماعی مراکز میں چلے جاتے ہیں اور قتل عام کرتے ہیں یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس وقت ٹرکوں اور پرائیوٹ گاڑیوں کو بھی، دہشت گردانہ حملوں میں استعمال کیا جارہا ہے-
بہرصورت تاریخی مشاہدات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہےکہ دہشت گردی ، خاص طور پر یورپ کے اندر پنپنے والی دہشت گردی پر کنٹرول پانا محض سیکورٹی تدابیر سخت کرنے اور طاقت کے استعمال کے ذریعے ممکن نہیں ہوگا - دہشت گردی کے خطرے کو ختم کرنے کے لئے اس کی تہوں تک پہنچنا ضروری ہے اور اسے وجود میں لانے والوں اور دہشت گردانہ اقدامات کی جانب لوگوں کے رجحان کی وجوہات کا پتہ لگانا ضروری ہے-