Jan ۱۶, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۶ Asia/Tehran
  • ایرانی ذرائع ابلاغ پر پابندی عائد کرنے کی امریکہ کی کوشش

ایران کے بعض شہروں میں چند دنوں کی بدامنی کے بعد، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئیٹ میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ملت ایران کے حامی ہیں یعنی اسی قوم کی حمایت کا وہ جھوٹا دعوی کر رہے ہیں کہ جسے کچھ ماہ قبل ایک تقریر میں دہشت گرد کہہ چکے ہیں۔

کچھ دنوں قبل ایران کے چند شہروں میں کچھ افراد نے اجتماعات منعقد کرکے بعض اشیا کی قیمتوں میں اضافے، مہنگائی، مالیاتی اداروں میں پیسوں کے ڈوب جانے اور حکومت کی کمزور نگرانی کے خلاف احتجاج کیا۔ اس درمیان بعض شر پسند عناصر نے ان اجتماعات سے غلط فائدہ اٹھاکر کچھ سرکاری عمارتوں، بینکوں اور پبلک مقامات پر حملے کئے اور توڑ پھوڑکی۔ عوام کے اصلی مطالبات کا رخ موڑ دینے کی  موقع پرست شرپسند عناصر کی کوششوں کا امریکی حکام اور انقلاب دشمن گروہ کے ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ دیگر دشمن ذرائع منجملہ سعودی عرب کے زیراثر چینلوں نے خوب ساتھ دیا اور انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

امریکی حکومت نے شرپسندوں اور بدامنی پھیلانے والوں کی حمایت کرتے ہوئے دیگر ملکوں سے بھی کہا کہ وہ ان عناصر کی حمایت کریں۔ امریکی مغربی اور سعودی ذرائع ابلاغ نے بھی ایران کے بعض شہروں میں اجتماعات کو سیاسی اجتماعات بنانے کی اپنی کوششیں تیز کردی تھیں۔ ایسے میں امریکی حکام نے انسانی حقوق کی حمایت کے بہانے ایران کے خلاف پابندیوں کی نئی لہر شروع کی ہے۔ اس درمیان ایران کے ریڈیو ٹیلیویژن کا نام بھی امریکی حکومت کی نئی پابندیوں کے نشانے پر ہے۔

میڈیا کے ماہر مقدم فر کہتے ہیں : یہ ایسی پابندیاں ہیں کہ جن کا ریکارڈ ماضی میں سرد جنگ کے دوران بھی نہیں ملتا اور کسی بھی ملک کا سرکاری میڈیا اب تک پابندیوں کی فہرست میں قرار نہیں پایا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ایرانی میڈیا کے ساتھ یہ غیر منطقی رویہ، کن اہداف کا حامل ہوسکتا ہے۔

اس طرح کے اقدامات البتہ بہت زیادہ عجیب و غریب نہیں ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ سالانہ دسیوں ملین ڈالر اس لئے خرچ کرتے ہیں تاکہ ایران سے متعلق ایسی تصاویر جو برخلاف حقیقت ہیں، مخاطبین کے ذہن میں اتاریں۔ اسی سبب سے وہ ایک ایسے میڈیا سے ناراض ہیں جو قومی اور عالمی سطح پر ان کی بیہودہ باتوں اور تصویروں کو مسترد کرکے،  ایران کی حقیقی تصویر پیش کر رہا ہے۔ قومی میڈیا کو نشانہ بنایا جانا، درحقیقت اس میڈیا کے با اثر اور طاقتور ہونے کے سبب بیرون ملک میں مخاطبین کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہونے اور مخالفین کی سازشوں اور پروپیگنڈوں کے ناکام ہونے کو  ظاہر کرتا ہے۔ 

امریکہ ، ایران کے عوام اور اسلامی جمہوری نظام کے درمیان فاصلہ ڈالنے اور عوام میں ناراضگی پیدا کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل اور حربے بروئے کار لا رہا ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی کی اسٹریٹیجی کے دستاویز میں آیا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ بعض نجی اور امریکی ریڈیو اور ٹیلویژنوں کی کیلیفورنیا ، نیوجرسی اور ڈی سی واشنگٹن میں مدد کریں اور ان کا ساتھ دیں تاکہ امریکی پیغام ایران کے اندر پہنچ سکے۔

امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل کی انٹرنیٹ سائٹ کے تجزیہ نگار رابرٹ مک ماہون نے فوجی اقدام کے بجائے ایران کے خلاف میڈیا کی طاقت کے استعمال اور افتراپردازی اور بیہودہ گوئی پر تاکید کی ہے۔ یہ امریکی تجزیہ نگار کہتا ہے کہ اس لحاظ سے کہ ایران کے خلاف فوجی اقدام بعید لگتا ہے اس لئے اس کے خلاف پروپیگنڈہ  مراکز قائم کرنے کے ذریعے نرم طاقت کے آپشن کو ترجیح دی جائے۔ بلا شبہ ایران کے قومی میڈیا اور آزاد ذرائع ابلاغ کی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کی امریکی کوشش سے، ہرگز اسے اس کا مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے کہ مخاطبین ، انتخاب کے حق کے اصول پر بھروسہ کرتے ہوئے، آزادی کے ساتھ ان ہی ذرائع ابلاغ  کا تعین کرتے ہیں جو بھروسے مند ہوں۔             

ٹیگس