Jan ۱۶, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۷ Asia/Tehran
  • عالم اسلام کے مسائل پر اسلامی ملکوں کے درمیان تبادلۂ خیال

آج دارالحکومت تہران میں اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی 13ویں پارلیمانی یونین کی کانفرنس کا آغاز ہوا جس میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی، پارلیمنٹ اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی اور 41 ممالک کے پارلیمانی سربراہان ، ڈپٹی اسپیکرز اور پارلیمانی وفود شریک ہیں۔

اس اجلاس میں میں دہشت گردی سے مقابلے، ڈونلڈ ٹرمپ اور صیہونی حکومت کی پالیسیوں کے مقابلے میں فلسطین کی امنگوں کے دفاع، اور علاقے کی خونریز جنگوں منجملہ یمن پر سعودی عرب کے جارحانہ حملے ختم کئے جانے جیسے مسائل کو اس اجلاس کے ایجنڈے میں قرار دیا گیا ہے۔ علاقے کی تبدیلیوں پر اثر انداز ہونے کے دعویدار بعض ملکوں کی اس اجلاس میں عدم شرکت اس امر کی غماز ہے کہ یہ حکومتیں، دہشت گردی سے مقابلے اورعلاقے میں امن و استحکام کی بحالی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔

ان ملکوں کی عدم شرکت کے باوجود تقریبا اکتالیس ملکوں کے پارلیمانی وفود کی اس اجلاس میں شرکت اس امر کی غماز ہے کہ تہران علاقائی سطح پر تبادلۂ خیال کے مرکز میں تبدیل ہوگیا ہے اور تہران کی سیکورٹی کانفرنس کے بعد، کہ جو ایک ہفتہ قبل مغربی اور عرب مہمانوں کی ایک تعداد کی شرکت سے منعقد ہوئی تھی، یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بہت سے ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ، علاقے میں امن  کے قیام اور علاقے کے نئے نظام کی تشکیل کے حوالے سے تہران کی جو حکمت عملی ہے اس کے ذریعے مغربی ایشیاء کے علاقے میں استحکام پیدا کریں۔

علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں علاقے کی بعض حکومتوں کے اختلافات کے باوجود،  پارلیمانی ڈپلومیسی اور پارلیمانی وفود کے درمیان تبادلۂ خیال اس گنجائش کا حامل ہے کہ پارلیمانی یونین کی کانفرنس میں شریک ملکوں کی حکومتیں اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کرکے اور علاقے کی قوموں کی نمائندہ بن کر ایک دوسرے سے بات چیت کریں۔ اور اس طرح کے تبادلۂ خیال اور مذاکرات جاری رہنے کی صورت  میں مغربی ایشیاء کے ممالک اور عالم اسلام، بیرونی مداخلتوں سے بے نیاز ہوجائیں گے اور یہ ممالک اپنے مسائل اور اختلافات کو خود ہی حل کرسکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی علاقے کے جن بعض ملکوں میں جمہوریت نہیں ہے اور ان ملکوں کے سیاسی ڈھانچے میں پارلمینٹ کا فقدان ہے، ان کو ہر قسم کے پارلیمانی مذاکرات اور تبادلۂ خیال سے مایوس کردیا ہے اور شاید یہی سبب ہے کہ بعض رجعت پسند عرب حکومتیں اس طرح کی پارلیمانی ڈپلومیسی کی چنداں حمایت نہیں کرتیں۔ 

اس بناء پر تہران میں منعقدہ تیرھویں اسلامی پارلیمانی یونین کانفرنس نے ایک بار پھر دنیا پر ثابت کردیا ہے کہ ایران اور بہت سے دیگر اسلامی ممالک نے، مذاکرات کی بنیاد پر تنازعات کو حل کرنے کی حکمت عملی اپنائے جانے کی حمایت کی ہے اور حکومتوں کے درمیان مذاکرات کے علاوہ اپنی پارلیمانوں کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ مؤثر تعلقات کی ایک قابل قبول سطح تک دسترسی پیدا کرسکیں۔

البتہ یہ فطری بات ہے کہ مغربی حکومتوں کے جو میڈیا اور ذرائع ابلاغ ، علاقے کے ملکوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کو اپنے فائدے میں دیکھ رہے ہیں اور ان اختلافات کو وہ اسلامی ملکوں کے امور میں مداخلت کے لئے ایک موقع جان رہے ہیں، وہ ان مذاکرات کو منفی نقطہ نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اسے کم اہمیت ظاہر کریں۔ 

اسی کے ساتھ ہی اسلامی پارلیمانی یونین کانفرنس نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے  کہ علاقے کے ممالک ، اپنے داخلی تنازعات کے حل کے سلسلے میں پختہ عزم رکھتے ہیں اور انہیں ایسے ملکوں کی بیجا مداخلتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ جو علاقے پر صرف اپنا تسلط جمانے اور مغربی ایشیاء کی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ سے ہتھیار فروخت کرنےکے درپے ہیں۔  

ٹیگس