طالبان سے امن مذاکرات میں شامل ہونے کے لئے افغان امن کی اعلی کونسل کی درخواست
افغان امن کی اعلی کونسل کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ اس ملک میں قیام امن کی ضرورت کے بارے میں بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا ہوچکا ہے اور طالبان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
امین الدین مظفری کا کہنا ہے کہ طالبان گروہ کابل حکومت کے ساتھ امن کے لئے حاصل ہونے والے اس اتفاق رائے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے- یہ پہلی بار نہیں ہے جب افغان حکومت کے اعلی حکام اور ذمہ داران خاص طور سے اس ملک کی اعلی امن کونسل طالبان سے امن کے عمل میں شامل ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن طالبان افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء جیسی شرطیں عائد کر کے ان درخواستوں کو مسترد کرتے رہے ہیں- اس کے باوجود شہرکابل میں انٹرکنٹینشل ہوٹل پر حملے سے کہ جو ترکی میں افغان حکومت اور طالبان کے وفود کے درمیان حالیہ مذاکرات کے بعد انجام پایا یہ ثابت ہوگیا کہ امن کے عمل میں شامل ہونے کے سلسلے میں طالبان گروہ میں اختلاف پایا جاتا ہے- اس بات کے پیش نظر کہ کہا جا رہا ہے کہ ان مذاکرات میں قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک وفد نے شرکت کی تھی کابل میں اس ہوٹل پر حملے نے واضح کردیا کہ طالبان کا ایک مضبوط دھڑا نہ صرف یہ کہ قطری دھڑے کا مخالف ہے بلکہ افغانستان میں بدستور تشدد اور جنگ کا ڈھول پیٹ رہا ہے- اس صورت حال نے نہ صرف بحران افغانستان اور اس ملک کے بحران کے حل کے لئے امن کے عمل میں شامل ہونے کے لئے طالبان کو تشویق دلانے کے لئے انجام پانے والی علاقائی و بین الاقوامی کوششوں کو مسائل و پیچیدگیوں سے دوچار کردیا ہے بلکہ پاکستان کو شک کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے کہ جو بحران افغانستان کے حل پر مائل نہیں ہے-
افغانستان کے سیاسی مسائل کے ماہر تجزیہ نگار کاکوجان کا کہنا ہے کہ طالبان کے کئی دھڑوں میں تقسیم ہونے کی ایک وجہ پاکستان سے اس گروہ کی سرکشی اختیار کرنا ہے کہ جو اب اس ملک کے احکامات کی پابندی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ طالبان کا کہنا ہے کہ ہم افغان ہیں اور ہمیں خود حکومت کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہئے لیکن پاکستان اس میں حائل ہے اور اپنے زیراثر گروہوں کو افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں شامل ہونے نہیں دے رہا ہے اس بنا پر نہ حکومت افغانستان سمجھ پا رہی ہے کہ اسے کس سے اور کس گروہ سے مذاکرات کرنے ہیں اور نہ ہی طالبان کا کوئی واضح موقف اور واحد رہنما ہے - حکومت افغانستان کی نظر میں طالبان اس ملک کا مقامی گروہ ، اور پختون ہے اور اگر یہ گروہ اپنے پہلے کے دعوے کے مطابق قومی انداز میں سوچتا ہے تو اسے برادرکشی سے دست بردار ہوکر افغانستان میں امن و سیکورٹی کے بارے میں سوچنا چاہئے تاکہ اس ملک کے بچےامن و سکون کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں اور ملک کی پیشرفت و ترقی میں مدد کریں اور اگر ایسا نہ ہوا تو افغانستان کی آئندہ نسلیں بھی طالبان کے ساتھ برسرپیکار رہیں گی-
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ میں طالبان سے ایک بھائی کی حیثیت سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے ملک اور عوام کو نقصان نہ پہنچائیں اور ہتھیار الگ رکھ کر برادرکشی ختم کریں اور افغانستان میں قیام امن میں مدد کریں - طالبان ملک میں جنگ جاری رکھ کر افغانستان کے عوام کے دشمنوں کا ساتھ دے رہے ہیں-
بہرحال افغانستان کی اعلی امن کونسل طالبان کےساتھ امن مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے اورایک بار پھر طالبان سے امن مذاکرات میں شامل ہونے کی درخواست کی ہے کہ جس پر ابھی حال ہی میں افغان حکومت کے چیف ایگزیکٹیوعبداللہ عبداللہ نے بھی تاکید کی ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے قومی اتفاق رائے بھی پایا جاتا ہے-