طالبان کو صدر افغانستان کا انتباہ
افغانستان کے صدر نے گروہ طالبان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ حملے جاری رہنے کے سبب، طالبان سے سخت انتقام لیا جائے گا۔
پیر کے روز کابل میں انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ طالبان گروہ سے افغان عوام کے قتل عام کا سخت اور فیصلہ کن انتقام لیا جائے گا۔ افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ طالبان عناصر نے کابل اور دیگر علاقوں میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔
صدر افغانستان ایسی حالت میں گروہ طالبان کو سخت انتقام کی دھمکی دے رہے ہیں کہ جب اس سے قبل انہوں نے افغانستان کے مختلف حلقوں میں طالبان گروہ سے اپیل کی تھی کہ وہ افغانستان امن کے عمل میں شامل ہوجائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال امریکہ کے منصوبوں کی ناکامی اور شکست کی غماز ہےاور ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغانستان میں کسی واضح اسٹریٹیجی اور پروگرام کے بغیر، اس ملک میں صرف بدامنی اور بحران کو ہوا دے رہے ہیں۔ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں اضافے پرامریکہ اور نیٹو کی تاکید اور امریکہ کے جنگی اور بمبار طیاروں کی منتقلی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں بحران اور بدامنی کوبڑھاوا دینے کے درپے ہے کہ جس کے نتیجے میں خونریز تشدد رونما ہو رہے ہیں۔
افغانستان میں سیاسی مسائل کے ماہر شجاع حسین محسنی کہتےہیں
امریکہ کی اسٹریٹیجی اس ملک کے قومی مفاد کے تحت بیان کی گئی ہے اور افغانستان میں جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ اس ملک میں امریکی پالیسی اور مفادات کے لئے لقمۂ تر موجود رہے گا۔
افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا جاری رہنا، گروہ طالبان کے لئے مناسب بہانہ ہوگیا ہے تاکہ وہ حکومت افغانستان کے ساتھ مذاکرات کی پیشگی شرط کے طور پر اس ملک سے امریکی فوج کے انخلاء پر تاکید کرتے ہوئے افغانستان میں اپنے خونریز حملے جاری رکھ سکیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ کو بھی طالبان کے حملوں میں شدت کے سبب، نام نہاد دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے افغانستان پر قبضہ جاری رکھنے کا بہانہ فراہم ہوگیا ہے اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ افغانستان میں اس سے بڑھ کر اہداف و مقاصد کے درپے ہے۔
ارجنٹائن کے مصنف اور تجزیہ کار سالبوچی اس سلسلے میں کہتے ہیں
افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں ایک بار پھر اضافے سے امریکہ کا مقصد منشیات کی منڈی کو باقی رکھنا ہے اور یہ وہی منصوبہ اور اسٹریٹیجی ہے جو انیسیوں صدی میں چین کے ساتھ برطانیہ کی تھی۔ اس بناء پر امریکہ کی جانب سے دہشت گردی سے مقابلے کا دعوی اور نعرہ ، محض ایک بہانے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے تاکہ رائے عامہ میں اپنی فوجی موجودگی کا جواز پیش کرسکے۔
بہر صورت، افغان فوج نے گذشتہ برسوں کے دوران یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ دہشت گردی سے مقابلے کی توانائی رکھتی ہے لیکن مغربی حلقے خاص طور پر امریکہ ، افغانستان میں بحران جاری رہنے کی ضرورت اور اپنے فوجیوں کو اس ملک میں تعینات رکھنے کے سبب ہرگز اس ملک میں امن و امان کی برقراری کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی سبب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں نئی عسکری حکمت عملی کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد افغانستان پر نامعلوم مدت تک قبضہ جاری رکھنا ہے اور جس کے نتائج ، بحران اور بدامنی میں مزید شدت کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔