رہبر انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے افغانستان میں دہشت گردانہ واقعات کی جڑیں
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دہشت گردانہ واقعات اور بدامنی میں اضافے نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی اور جنگ و صلح کا مسئلہ، علاقے اور علاقے سے باہر کے بعض ملکوں کے مختلف اہداف سے جڑا ہوا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے منگل کی صبح دینی تعلیم کی اعلی سطح میں شامل طلبا کے درس میں خطاب کرتے ہوئے افغانستان میں گذشتہ چند مہینوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں داعش اور طالبان کے ہاتھوں سینکڑوں افراد کے جاں بحق ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن عناصر نے داعش کو وجود دیا اور اسے شام اور عراق کے عوام کے خلاف ظلم وستم کے لئے آلہ کار قرار دیا آج وہی ،ان علاقوں میں شکست کے بعد، داعش کو افغانستان منتقل کرنے کے درپے ہیں اور حالیہ دنوں میں ہونے والا قتل عام اسی سازش کی ایک کڑی ہے۔
افغان حکومت تقریبا چار عشرے سے، سیکورٹی کے مسائل اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ افسوس کہ افغانستان کو بدستور نمایاں طور پر بدامنیوں میں اضافے کا سامنا ہے اور یہ صورتحال افغانستان کے سیاسی استحکام کے لئے ایک پائیدار خطرے میں تبدیل ہوگئی ہے جس کےعلاقے پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
افغانستان میں امن و امان کی صورتحال سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے امریکہ اس کوشش میں ہے کہ بدامنی کو بڑھاوا دے۔ اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے بارے میں تجزیہ نگاروں نے اظہار خیال کرتے ہوئے افغانستان میں بدامنی میں شدت کو اس ملک میں امریکیوں کی طویل المدت موجودگی کے جواز کے لئے، امریکیوں کے اہداف کا حصہ قرار دیا ہے۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی پر قابو پانے اور اس کو شکست دینے کے بجائے دہشت گرد گروہوں کے لئے مزید دروازے کھول دیئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ علاقے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا بانی ہے اوروہ داعش کو استعمال کرکے علاقے کے ملکوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی اس سلسلے میں ، درحقیقت امریکی ہدف اور سازش کے دو اہم پہلوؤں یعنی علاقے کی قوموں کو اپنے آپ میں مشغول رہنے اور علاقے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا جواز پیش کرنے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں امریکہ اس امر کے درپے ہے کہ اس علاقے کے عوام کو خوشی اور سکون نصیب نہ ہو اور علاقے کی حکومتیں اور قومیں خود میں مشغول رہیں تاکہ خبیث استکبار یعنی صیہونی ازم کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھا سکے۔ اسی لئے امریکہ کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے لئے شیعہ اور سنی میں کوئی فرق نہیں ہے اس لئے کہ ان عناصر کا مقصد شیعہ سنی سمیت عام افراد کو نشانہ بنانا ہے-
افغانستان پر ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے غاصبانہ قبضے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں نہیں، بلکہ علاقے میں بدامنی، جنگ جاری رہنے اور فوجی مداخلت میں دیکھ رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جان نیکلسن نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ چار سو امریکی فوجی کہ جو افغانستان کی سرحد کے اس پار موجود ہیں انہیں ضرورت پڑنے کی صورت میں افغانستان روانہ کیا جائے گا تاکہ دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کی کاروائیوں میں شرکت کریں۔
یہ ایسے میں ہے کہ جب امریکہ، داعش کو مشرق وسطی سے افغانستان منتقل کرنے کے درپے ہے تاکہ تکفیری دہشت گردوں کے ذریعے افغانستان کے پڑوسی ملکوں کی سرحدوں کو خطرے سے دوچار کردے۔ افغانستان ، پڑوسی ملکوں میں داعش کے اثر و رسوخ کے لئے مناسب جغرافیائی پوزیشن کا حامل ہے۔ جن ممالک کو تکفیری عناصر کے خطرات کا سامنا ہے ان میں ایران ، روس، پاکستان، چین اور وسطی ایشیاء کے ممالک شامل ہیں۔