بحرین کے ممتاز عالم دین شیخ عیسی قاسم کی حالت کے بارے میں تشویش
بحرین میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور عالم دین شیخ علی الکربابادی کا خیال ہےکہ آل خلیفہ حکومت ممتاز عالم دین شیخ عیسی قاسم کو علاج معالجے کی اجازت نہ دے کر درحقیقت اس بزرگ عالم دین کو تدریجی طور پر قتل کرنے کے درپے ہے-
ایک مدت سے بحرین میں انسانی حقوق کی صورتحال خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے اور آل خلیفہ حکومت نے انقلابیوں اور شہری باشندوں کے خلاف اپنے وحشیانہ اور سرکچلنے والے اقدامات میں شدت پیدا کردی ہے۔ اس سلسلے میں بحرینی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ آل خلیفہ حکومت نے شیخ عیسی قاسم کے گھر کا محاصرہ تنگ کردیا ہے اور عنقریب اس محاصرے کو ختم کرنے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ شیخ عیسی قاسم کی جسمانی حالت بہت خراب ہے۔ کچھ دنوں قبل تک شیخ عیسی قاسم خود ہی اپنے پیروں سے راستہ چل سکتے تھے لیکن حال ہی میں جو صورتحال پیش آئی ہے اس کی بناء پر وہ ویلچیئر پر چلنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور خود سے راستہ نہیں چل سکتے ہیں- اسی لئے بحرینی عوام میں شیخ عیسی قاسم کی سلامتی کے تعلق سے بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ آل خلیفہ حکومت مختلف ہتھکنڈوں سے بحرینی علماء کو ختم کرنے کے درپے ہے تاکہ وہ بحرین کے سیاسی اور مذہبی میدانوں میں کوئی سرگرمی انجام نہ دے سکیں- اسی بناء پر آل خلیفہ حکومت شیخ عیسی قاسم کے خلاف اپنے سرکچلنے والے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے- بحرین کے عوام نے 14 فروری 2011 میں اپنی عوامی تحریک کا آغاز کیا اور اب اس تحریک کو سات سال پورے ہو چکے ہیں ۔ بحرین کی اس تحریک کو انقلاب مروارید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس انقلاب کو سات سال بیت چکے ہیں اور جہاں ایک طرف بحرین کی ڈکٹیٹر اور استبدادی آل خلیفہ حکومت اس تحریک کو کچلنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف اس تحریک کے تسلسل نے اس انقلاب کے کئی پہلوؤں کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ اس تحریک کی دنیا بالخصوص خطے کی دیگر عوامی تحریکوں سے بنیادی فرق یہ ہے کہ اس تحریک پر عالمی برادری نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اس پر عالمی سطح پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسکے علاوہ بحرین میں چلنے والی اس تحریک کا مصر، تیونس، لیبیا اور یمن سے بنیادی فرق یہ ہے کہ بحرین کے ڈکٹیٹر کو بچانے کے لیے سعودی عرب نے اپنی فوجیں بحرین میں اتار دیں اور یوں آل خلیفہ حکومت بیرونی فوجی مدد کیوجہ سے تیونس، لیبیا اور یمن جیسی صورت حال سے دوچار نہ ہو سکی۔ بحرین کی عوامی تحریک کی ایک اور بڑی مشکل انسانی حقوق حتی اقوام متحدہ کا جانبدارانہ اور مجرمانہ کردار ہے جسکی وجہ سے اس عوامی تحریک کو باہر سے خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ اقوام متحدہ سمیت اکثر عالمی اداروں نے نہ صرف بحرین کے مظلوم اور جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے والے عوام کی مطلوبہ مدد نہ کی بلکہ بعض اوقات تو اس تحریک کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کی ہیں۔
بحرینی علماء، اس ملک کے عوام کی قیادت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور اسی بناء پر بہت سے بحرینی علماء آل خلیفہ کی تشدد آمیز اور سرکچلنے والی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں- آل خلیفہ حکومت، کہ جسے عوامی احتجاجات کو کچلنے کے باوجود کوئی کامیابی نہیں ملی ہے اور یہ مظاہرے بدستور جاری ہیں، اس خیال میں ہے کہ اگر عوامی رہنماؤں کا صفایا کردے گی تو یہ احتجاج رک جائیں گے۔ اسی بناء پر آل خلیفہ حکومت نے شیخ عیسی قاسم کو ، جو بحرینی عوام کی اکثریت کے معنوی باپ ہیں، ختم کرنے کو اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے۔ اسی تناظر میں بحرینی حکومت نے جون 2016 کے شروع میں شیخ عیسی قاسم کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرکے ان کی شہریت سلب کرلی تھی۔
عراق کے سیاسی تجزیہ نگار علی التمیمی کہتے ہیں یہ فیصلہ اقوام متحدہ کے منشور اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہے۔ یہ فیصلہ اسی طرح انسانی حقوق کے عالمی بیانیے کی پندرھویں شق کے بھی برخلاف ہے کیوں کہ کسی شہری کی شہریت سلب کرنا غیر قانونی عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری نظر میں بحرین کے سیاسی نظام نے اس جیسے فیصلے کرنے اورعلماء دین کی شہریتیں سلب کرنے کے نئے مرحلے کا آغاز کرکے اپنی سیاسی عمر کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے-
بحرینی حکومت نے شیخ عیسی قاسم کے خلاف بے بنیاد الزامات لگاکر ان کی شہریت چھین لی جس کے خلاف عوام نے زبردست مظاہروں کا آغاز کردیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ آل خلیفہ حکومت نے عوامی احتجاج کو کچلنے کے لئے حکومت مخالف بہت سے رہنماؤں کو گرفتار کرلیا اور ان کے خلاف کیس بناکر، انہیں طولانی مدت کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ہے۔ بحرینی عوام میں اپنے ممتاز دینی پیشوا شییخ عیسی قاسم کے حوالے سے جو تشویش پائی جاتی ہے اس کے باعث آل خلیفہ حکومت کے خلاف بحرینی عوام کے غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔ آل خلیفہ حکومت ہر ہتھکنڈے کے ذریعے بحرینی عوام اور ان کے رہنماؤں کے درمیان اختلاف ڈالنے کے درپے ہے لیکن آل خلیفہ کی یہ سازش بے نقاب ہوچکی ہے اور اس صورتحال نے بحرینی عوام کو اپنے رہنماؤں کی سرنوشت کے سلسلے میں بہت زیادہ حساس کردیا ہے۔