بحرین میں سعودی عرب و متحدہ عرب کے قبضے کی مذمت
بحرین کے چودہ فروری اتحاد اور جمعیت اسلامی قومی وفاق نامی گروہوں نے اس ملک میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے فوجیوں کے قبضے کی مذمت کرتے ہوئے اپنی تقدیر کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے استقامت جاری رکھنے پر تاکید کی -
بحرین میں چودہ فروری دوہزارگیارہ سے اس ملک کی موروثی ڈکٹیٹرحکومت کے خلاف عوامی انقلابی تحریک بدستورچل رہی ہے- بحرین کے عوام اپنے ملک میں آزادی ، انصاف کے قیام اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے خواہاں ہیں لیکن آل خلیفہ حکومت ، بحرین میں سپر جزیرہ کے قالب میں تعینات سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے فوجیوں کی مدد سے اس ملک کے عوامی احتجاج کو نہایت سختی سے کچل رہی ہے- فروری دوہزارگیارہ میں بحرینی عوام کی پرامن تحریک شروع ہونے اور اسے دبانے میں بحرین کی آل خلیفہ حکومت کی ناکامی کے بعد سعودی عرب نے چودہ مارچ دوہزارگیارہ میں سپر جزیرہ کے نام سے موسوم فورس کے تناظر میں اس ملک میں اپنے فوجیوں کو تعینات کردیا-یہ ایسی حالت میں ہے کہ سپرجزیرہ فورسس کی تشکیل کا مقصد بیرونی حملوں کے مقابلے میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی حمایت و مدد کرنا ہے- آل خلیفہ کے مظالم اور اغیار کے سامنےان کے گھٹنے ٹیکنے سے بحرین کے عوام عاجز آچکے ہیں لہذا وہ اس ملک کی استبدادی وڈکٹیٹر حکومت سے رہائی، جمہوریت کے قیام اور غیرملکی فوجیوں کے انخلاء تک اپنا احتجاج جاری رکھنے پر تاکید کر رہے ہیں- حالیہ دنوں میں آل خلیفہ حکومت کی عوام کی سرکوبی کی پالیسی میں شدت آنے کے بعد ان مظالم میں عرب حکام کے شامل ہونے کے سلسلے میں مزید تفصیلات منظرعام پرآئی ہیں- امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق حکومت بحرین ، اس ملک میں سن دوہزار گیارہ سے جاری عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کم سے کم دس ارب ڈالر حاصل کرچکی ہے- سعودی عرب نے مئی دوہزاربارہ میں بھی آل خلیفہ کے ساتھ سیکورٹی اتحاد کی تشکیل کا اعلان کیا جس کا کھلا مصداق بحرین کا کالونی میں تبدیل ہونا تھا اور اس کے مخالفین نے اسے اپنے ملک پر آل سعود کے قبضے کا نام دیا- بحرین کےعوام ، اپنے ملک پر سعودی عرب کی لشکرکشی کو آل سعود کے غاصبانہ قبضے سے تعبیر کرتے ہوئے پورے عزم سے آل خلیفہ کا مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ آل سعود اور آل خلیفہ نے مختلف طریقوں سے بحرین پر اپنے غاصبانہ قبضے کی قانونی بنیادوں پر توجیہ کرنے کی کوشش شروع کردی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحرین میں سعودی فوجیوں کی موجودگی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے عرف میں بھی ایسا نہیں ہوتا-
سعودی عرب اور بحرین کی حکومتوں نے بحرینی عوام کی سرکوبی میں باہمی تعاون اوراپنی فوجی موجودگی کو خلیج فارس تعاون کونسل کے سپرجزیرہ منصوبے سے مربوط کرنے کی کوشش کی لیکن یہ نظریہ بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ سپرجزیرہ منصوبہ ، بیرونی حملے کے مقابلے میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کا دفاع و مدد کرنے کے لئے ہےجبکہ بحرین کا مسئلہ ایک داخلی مسئلہ ہے اور اس ملک کے عوام اپنے ملک کی جابر و ڈکٹیٹر حکومت کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں - اقوام متحدہ کے منشور اور دیگر بین الاقوامی قانونی اداروں اور کنونشنوں میں کوئی ایسی شق نہیں ہے جس میں کسی ملک کی حکومت کو اپنی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والے عوام کی سرکوبی کے لئے کسی دوسرے ملک سے مدد لینے کی اجازت دی گئی ہو بلکہ بنیادی اصول ملکوں کے اقتداراعلی اور خودمختاری کے احترام پر مبنی ہے اوردوسرے ممالک کے امور میں عدم مداخلت پر تاکید کی گئی ہے- بحرین کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ آل خلیفہ کی وابستہ و غلامانہ ماہیت کھل کرسامنے آنے کے بعد بحرینی عوام اپنے ملک کے سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلی اورسعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مداخلت اور غاصبانہ قبضے کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید پرعزم ہوگئے ہیں-