عسقلان جیل میں فلسطینی قیدیوں کی بھوک ہڑتال
عسقلان جیل میں فلسطینی قیدیوں نے سولہ جون سے بھوک ہڑتال شروع کر رکھی ہے-
فلسطینیوں کے خلاف تشدد نے وسیع رخ اختیار کر لیا ہے - اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی بھی ظلم و تشدد سے محفوظ نہیں ہیں - اس وقت صیہونی حکومت کی جیلوں میں پانچ ہزار سات سو فلسطینی، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں - بعض قیدیوں کی حالت تو نہایت ہی ابتر ہے جن میں عسقلان جیل کے قیدیوں کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے- اس جیل میں پینتالیس فلسطینی قیدی ہیں جن میں سب نے ہی صیہونی اہلکاروں کے تشدد پر احتجاج کرتے ہوئے بھوک ہڑتال شروع کررکھی ہے-
المیادین ٹی وی نے اس سلسلے میں اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ : فلسطینی قیدیوں نے صیہونی حکومت کی جانب سے گذشتہ اپریل سے اپنے گھروں پر صیہونی فوجیوں کے بار بار کے حملوں ، تفتیش ، جرمانہ وصول کرنے اور پھر گرفتار کر کے جبری طور پر جیلوں میں بند کردیئے جانے کا سلسلہ تیز ہونے کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کردی ہے-
اگرچہ عسقلان جیل کے قیدیوں کے خلاف کھلےعام تشدد و مظالم ہو رہے ہیں تاہم عسقلان جیل کے قیدیوں کی صورت حال بھی اچھی نہیں ہے جن میں خاص طور سے بیمار قیدیوں کی حالت کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے- اسرائیلی جیلوں میں جن بیمار قیدیوں کی حالت نہایت خراب ہے انھیں بھی اسپتالوں میں نہیں پہنچایا جاتا جبکہ بعضی قیدی اسی بنا پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں - فلسطینی قیدیوں پر طرح طرح کے جسمانی تشدد کے ساتھ ہی نفسیاتی تشدد بھی کئے جاتے ہیں جس میں ایک تو قیدیوں کے اہل خاندان کو ان کی گرفتاری کی اطلاع نہ دینا ہے اور اس کا سلسلہ حالیہ مہینوں میں بڑھ گیا ہے- اگرچہ تشدد ، قیدیوں سمیت دیگر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کا دائمی رویہ بن چکا ہے لیکن بعض اوقات اس میں شدید اضافہ ہوجاتا ہے اور اس وقت بھی قیدیوں پر تشدد میں کافی شدت آگئی ہے اور اس کی مختلف وجوہات ہیں-
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ رائے عامہ کی توجہ اس وقت سینچری ڈیل اور منامہ اقتصادی اجلاس پرمرکوز ہے جو پچیس و چھبیس جون کو بحرین کے دارالحکومت منامہ میں ہونے والا ہے- درحقیقت منامہ اجلاس اسرائیل کے لئے فلسطینیوں پر رائےعامہ کی نظروں سے بچ کر تشدد کا سلسلہ بڑھانے کا اچھا موقع ہے-
دوسرے یہ کہ اسرائیلی حکومت کو اس وقت ہمیشہ سے زیادہ امریکی حمایت حاصل ہے اور سینچری ڈیل اس حمایت کی معراج ہے- امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی کھلی ہوئی یکطرفہ حمایت خاص طور سے یہودی کالونیوں کی تعمیر اور عام شہریوں پر حملے جیسے کھلم کھلا جرائم نے جن کا واپسی مارچ کے موقع پر بخوبی مشاہدہ کیا گیا اور جس میں اب تک تین سو سے زیادہ افراد شہید اور تقریبا اٹھارہ ہزارفلسطینی زخمی ہوچکے ہیں، تل ابیب کو فلسطینی قیدیوں پر تشدد تیز کرنے کے سلسلے میں ڈھیٹ بنا دیا ہے جن کی رپورٹیں کیمرے بھی نہیں دے سکتے -
اور تیسرے بعض عرب ممالک خاص طور سے سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کا حمایتی رویہ اور ان کی جانب سے اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت ، تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے ان ممالک کی کوششیں اور فلسطین کے خلاف اسرائیلی جرائم کے بارے میں دیگر عرب ممالک کی انعفالی روش بھی اس بات کا باعث بنی ہے کہ صیہونی حکومت کو قیدیوں سمیت دیگر فلسطینیوں کے خلاف تشدد بڑھانے میں کوئی ہراس اور پس وپیش نہیں ہے-