امیر قطر نے تہران کا دورہ کیوں کیا؟
امیر قطر شیخ تمیم حمد آل ثانی نے اتوار کو تہران کا دورہ کیا - شیخ تمیم نے اپنے اس دورے میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای اور صدر ایران حسن روحانی سے ملاقات اور گفتگو کی-
امیر قطر کا دورۂ تہران چند پہلوؤں سے اہمیت کا حامل ہے-
اس دورے کی اہمیت کا پہلا پہلو یہ ہے کہ شیخ تمیم نے 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اپنا یہ پہلا دورۂ تہران انجام دیا ہے- ایران اور قطر جہاں دو پڑوسی ملک ہیں وہیں ان کے پاس مشترکہ گیس فیلڈز بھی ہیں- اور دونوں پڑوسی ملکوں کے لئے سیاسی و اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے- اس بنا پر دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لینا اور اس کی راہوں کو تقویت پہنچانا، شیخ تمیم کے دورے کی ایک اہم ترین وجہ تھی- اسی سلسلے میں صدر ایران حسن روحانی نے بھی آئندہ چند مہینوں میں مشترکہ کمیشن کی تشکیل کی خبردی ہے-
اس دورے کی اہمیت کا دوسرا پہلو مغربی ایشیا کے خطے میں کشیدگی میں اضافے سے متعلق ہے- سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی، امریکہ کے دہشت گردانہ حملے میں شہادت اور پھر اس دہشت گردانہ حملے کے جواب میں عراق میں امریکی فوجی اڈے پر ایران کے توسط سے متعدد میزائلوں سے حملہ ، ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافے اور اسی طرح مغربی ایشیا کی سطح پر کشیدگی کے اپنے عروج پر پہنچنے کا سبب بنا ہے- جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے صرف ایک دن بعد قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے ایران کا دورہ کیا تھا اور ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف سے، خطے میں کشیدگی کم کرنے کے تعلق سے تبادلۂ خیال کیا تھا-
شیخ تمیم کے دورۂ تہران میں خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی سیکورٹی کا مسئلہ بھی، مذاکرات کا ایک اہم محور تھا- ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں امیر قطر، امریکہ کی جانب سے بھی ایک پیغام لے کر آئے تھے- اس امر کے پیش نظر کہ عمان کے بادشاہ سلطان قابوس کہ جو ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی میں اہم رول ادا کر رہے تھے اور جمعے کو ان کا انتقال ہوگیا تو اب تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ قطرکی کوشش ہے کہ وہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان ثالثی کے لئے عمان کی جگہ لے لے-
امیر قطر کے دورۂ تہران کی اہمیت کا تیسرا پہلو ، قطر کے ساتھ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مصر کے حالات کشیدہ ہونے کے بعد ، ایران نے قطر کی جو حمایت کی اس کی قدردانی کرنا تھا- واضح رہے کہ جون 2017 میں ان چار عرب ملکوں نے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرکے اس کا محاصرہ کرلیا تھا اور اس پر پابندیاں عائد کردی تھیں- اسلامی جمہوریہ ایران اور ترکی نے ایسے میں دوحہ کی حمایت کی اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران نے، قطرکی مدد کرتے ہوئے قطر کے طیاروں کو اپنی فضا میں آمد و رفت کی اجازت دے دی- اگر ایران کی حمایت نہ ہوتی تو قطر کے خلاف محاصرے اور پابندیوں کے باعث، اسے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا- اس بنا پر شیخ تمیم نے رہبر انقلاب اسلامی اور صدر روحانی کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ وہ تہران کی مدد و حمایت کو کبھی فراموش نہیں کریں گے-
اتوار کی شام تہران میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر حسن روحانی نے کہا کہ مغربی ایشیا کے بعض ملکوں نے قطر کی ناکہ بندی کر رکھی ہے تاہم تہران ، دوحہ کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نےایران اور قطر کے تعلقات کی سطح کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی، تجارتی اور تعلیمی شعبے میں تعاون کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ صدر ایران نے کہا کہ امیر قطر کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں باہمی روابط کے فروغ کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ تہران اور دوحہ کے درمیان اچھے سیاسی تعلقات قائم ہیں اور دونوں ممالک دیگر شعبوں میں بھی تعلقات کو آگے بڑھانے میں پر عزم ہیں۔ قطرکے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے اس موقع پر اپنے ملک کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی قدر دانی کی۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ خطے کے موجودہ مسائل اور مشکلات کو صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران قطر کے ساتھ مذکورہ چار عرب ملکوں کے تعلقات بحال کرنے کی باتیں سنی جا رہی ہیں اور ریاض اور دوحہ کے درمیان مذاکرات بھی انجام پائے ہیں- اس سے قبل سعودی عرب نے قطر کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے کچھ شرطیں منجملہ ایران کے ساتھ تعلقات محدود کرنے کی شرط رکھی تھی- شیخ تمیم نے ایران کا دورہ کرکے اور دونوں ملکوں کے سیاسی و اقتصادی تعلقات کے فروغ کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے عملی طور پر یہ ثابت کردیا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی ممکنہ بحالی، تہران اور دوحہ کے تعلقات پر ذرا بھی اثرانداز نہیں ہوگی-