پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی برج کیسے الٹے
پاکستان کےعام انتخابات 2018 میں کئی بڑے ناموں کو شکست کی ہزیمت کا سامنا رہا اس کےعلاوہ تکفیریوں اور ان کے حامیوں کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
پاکستان میں انتخابی نتائج کو دیکھتے ہوئے حیران کن طور پر کئی حلقوں میں بڑے بڑے اپ سیٹس کا سلسلہ جاری ہے کئی بڑے بڑے نام پارلیمانی سیاست سے باہر ہوگئے ہیں اور کچھ امیدوار خلاف توقع کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
پنجاب میں بڑا دنگل سجا جہاں سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنی آبائی سیٹ سے دنگل سے باہر ہوگئے، یوسف رضا گیلانی کو بھی ملتان سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ تحریک انصاف کی مضبوط ترین امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خواجہ سعد رفیق، عابد شیرعلی اور طلال چودھری بھی پارلیمانی سیاست سے باہر ہوگئے۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے خائف اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے والے چودھری نثار بھی دو قومی اسمبلیوں کی نشستوں پر اپنی دھاک نہیں بٹھا سکے ۔ ن لیگ کے صدر اور سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف لاہور کی سیٹ پر کامیابی حاصل کرسکے تاہم دیگر نشستوں پر انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے تحریک انصاف کے علیم خان کو شکست دی، علیم خان صوبائی اسمبلی کی نشست بھی ہار گئے۔
مولانا فضل الرحمان بھی اپنے ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے انہیں امین گنڈا پور نے بری طرح شکست دی۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو لیاری اور مالاکنڈ کے عوام نے مسترد کردیا، سابق وفاقی وزیر بلیغ الرحمان ہارنے والوں میں شامل ہیں اویس لغاری بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ سراج الحق کی تمام حکمت عملی بھی انتخابی نتائج تبدیل نہ کرسکی انہیں بھی شکست فاش کا سامنا ہوا۔ امیر مقام اور اسفند یار ولی بھی شکست کھانے والوں میں شامل ہیں ۔ 2018 کے انتخابات میں مذہبی انتہا پسندوں اور تکفیریوں اور ان کے حامیوں کو بھی زبردست شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
پاکستان کے عوام نے اپنے ووٹ کے زور سے دکھا دیا کہ جو صرف بات کریں گے اور عوام کے مسائل و مشکلات کو حل نہیں کریں گے اور صرف نعرے لگائیں گے انہیں عوام مسترد کردیں گے۔