غصہ، شیطانی آگ کا دوسرا نام
تحریر: حسین اختر
غصّہ انسان کی ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو اندرونی کشمکش اور انتقامی کاروائی کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے اور جب یہ کشمکش اور اندرونی ہیجان زیادہ شدید ہوجاتا ہے تو یہ آگ غیظ و غضب کو بڑھاوا دیتی ہے۔ایک تند و شدید ہلچل دل و دماغ پر حاوی ہوجاتی ہے۔ جس کی بنا پر آدمی اپنے دماغ و جذبات پر قابو کھو بیٹھتا ہے اس طرح وہ بالکل بے بس ہوجاتا ہے اور اس بے بسی کے وقت اندرونی طور پر ایک خلاء پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کو سمجھانا اور خاموش کرنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے اور اس کے دل میں لگی ہوئی آگ کو بجھانا دوسروں کے اختیار سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کو سمجھانے کے لئے جو بھی طریقہ اپنایا جائے گا وہ خود ہی اس حالت کاایک حصّہ بن کر اس آگ کو اور بھڑکا دیتا ہے اور وہ شخص اس صورت میں ایک طرح سے اندھا اور بہرہ ہوکرآداب و اخلاق اسلامی سے بہت دور چلا جاتا ہے اور انتقامی کاروائی کرنے کے فراق میں رہتاہے۔
ایک شخص جس پر غصّہ غالب آجاتا ہے اس کے حرکات و سکنات غیر مناسب اور عقل سے عاری ہوجاتے ہیں بلکہ پاگل و دیوانے کی طرح حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ اس کے افعال شرم و حیا اور اخلاق سے گرے ہوئے ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی زبان و اعضاء اور جسم بھی اس کے قابو میں نہیں رہتے۔ایک شخص غضب سے مغلوب ہوکر ظلم و ستم اور تباہ کاریوں کی ساری حدیں پار کرلیتا ہے اور بہت سےافراد، گھرانے اور سارے سماج کو ختم کرسکتا ہے۔غصّہ اللہ کی مخلوق کی طرف بغض و عناد پیدا کرتا ہے۔ انبیاء اور اولیاء کے خلاف دشمنی پیدا کردیتا ہے بلکہ ایک قدم اور آگے جاکر خداوند متعال کے خلاف دشمنیاں مول لے لیتا ہے۔ یہ غیظ و غضب بہت سی دوسری بُرائیوں کو انسان کے اندر پیدا کردیتا ہے یہاں تک کہ حسد، دشمنی اور غیر منصفانہ انتقام پر اکساتا ہے۔
غصّہ جو ایک شخص کی مستقل عادتِ ثانیہ بن جاتا ہے۔ ایک بہت ہی تباہ کن چیز ہے یہ انسان کے قلب کو سست اور مردہ بنا دیتا ہے اور اس کے عقل و دانش پر اثر انداز ہو جاتا ہے ۔فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ توریت میں خداوندعالم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تاکید فرمائی کہ اے موسی اپنے غصّے پر قابو رکھو اور ان لوگوں پر غضب نہ ڈھاؤ جن کو تمہارے قابو میں دیا گیا ہے تاکہ میں تم کو اپنے قہر سے باز رکھوں۔
ایک بہادر وحوصلہ مند شخص کا برتاؤ اس کی عقلمندی اور روح کی پاکیزگی پر منحصر ہوتا ہے اگروہ غصہ بھی کرتا ہے تو مناسب موقع و محل پر اور عام طور پر صابر اور اپنے اوپر قابو رکھنے والا ہوتا ہے۔ اس کا غصّہ ایک مناسب حد تک ہوتا ہے اور اگر کبھی انتقامی کاروائی پر اترتا بھی ہے تو معقول دلیل اور سمجھ بوجھ کرہی کوئی اقدام کرتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کس کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور کس کو معاف کیا جاسکتا ہے ایک حقیقی مؤمن کا غصّہ بھی اللہ ہی کے لئے ہوتا ہے۔ غصّے کے عالم میں وہ اپنی ذمہ داریاں یاد اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے، کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ وہ نہ تو کبھی غیر مہذب جملے زبان سے نکالتا ہے اور نہ ہی کوئی بد اخلاقی اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہے۔ اس کا ہر فعل معقول، منصفانہ اور شرعی قوانین کے مطابق ہوتا ہے وہ کبھی ایسا کام نہیں کرتا کہ بعد میں پشیمانی اور شرمندگی اٹھانی پڑے ،اسی لئے فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایاہے کہ: اگر کوئی شخص اپنے غصّے پر قابو پالیتا ہے تو اللہ اس کے اعمال کو قبول اور رازوں کو چھپا دیتا ہے۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : اپنے آپ کو غصّے سے بچاؤ کیونکہ اس کی ابتداء دیوانگی اوراس کی انتہا ندامت و پشیمانی ہے ۔