دعا مومن کا ہتھیار ( تیسرا حصّہ )
تحریر: ن تقوی
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان مصائب و آلام سے گھبرا کر مبہوت ہو جاتا ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کرے‘ ایسے میں اس کے دل میں خیال آتا ہے دعا کر کے دیکھیں شاید بلا ٹل جائے‘ دراصل مصلحت ایزدی سے ایک اشارہ ہوتا ہے کہ میرے بندے دعا مانگ لے‘ جب نزول بلا کا خوف ہو تو گھبرایئے نہیں بلکہ کہیے اللہ ربی‘ اللہ ربی اور پھر دعا کی تیاری کیجیے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
مَن تخوّف من بلاء یصیبہ فتقدم فیہ بالدعاء لم یرہ اللّٰہ عزَّوجّلَ ذٰلِکَ البَلاء ابدَاً
جس کو نزول بلا کا خوف ہو اس صورت میں اسے پہلے دعا کرنی چاہیے اللہ اُسے کبھی اس بلا کی صورت نہ دکھائے گا۔
ان حالات میں انسان کے لیے ضروری ہے کہ راحت کے وقت زحمت کے متوقع مکافات کی دعا مانگا کرے‘ ہو سکتا ہے اس بلا کا نزول نہ ہو اور آئندہ لمحات میں آسودہ رہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دعا کرنے والا خدا کے شاکر بندوں میں شمار ہوگا۔
رب العزت اسے نگاہ التفات سے دیکھے گا کیونکہ اس نے آسودگی میں آلودگی کو مدنظر رکھا ہے۔ دعا کے ساتھ اپنے خالق حقیقی کو یاد کرتا رہا ہے اور آنے والی مصیبتوں سے اپنے آپ کو اپنی عاجزی اور انکساری سے بچا لیا ہے۔ اس زمرے میں خصوصی طور پر یاد رکھنا ہوگا کہ اپنی دعا پر یقین کامل ہونا مساعد حالات میں بھی دعا کو فراموش نہ کرے اور اس اطمینان قلب کے ساتھ اپنے یقین کو مستحکم رکھے کہ وہ یقینا باب اجابت تک پہنچے گی۔
عالم اسلام کے عظیم مفکّر علامہ اقبال انسانوں پر دعا کے پڑنے والے اثرات کے بارے میں اپنے کے خطبے میں فرماتے ہیں
دعا کی بدولت ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ اپنے آپ کو یک دم بحربیکراں میں پاتا ہے دوسرے لفظوں میں حقیقت مطلقہ سے ہم کنار ہو کر ہماری شخصیت میں طاقت اور وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ مختلف انسانوں پر دعا کے مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آخر کلام یہ ہے کہ انسان کو دعا کے ذریعے اپنی مشکلات و پریشانیوں کو خداوند متعال کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہیے یہ موضوع بہت وسیع ہے ہم نے مختصر طور پر صرف چند نکات پر بات کی ہے قارئین کو چاہیے کہ اس حوالے سے اپنے مطالعات کو وسعت دیں اور بہت یہ ہے کہ دعا کو اپنی زندگی کا جز بنائيں تاکہ خداوند متعال کو لطف و کرم ہمارے شامل حال ہو۔
اس ضمن میں آئمہ اطہار علیھم السلام کی تعلیم کردہ دعاؤں سے استفادہ کیا جائے خاص طور پر فرزند رسول حضرت امام سجاد علیہ السلام کی تعلیم کردہ دعائیں کہ جو مکتوب صورت میں آپ کی دعاؤں کی کتاب صحیفۂ سجادیہ میں موجود ہیں۔
یہ کتاب دعاؤں کا ایسا گنجینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان خدا کے نزدیک ہوسکتا ہے، ان دعاؤں کا ہر ہر کلمۂ اپنے اندر معانی و مفاہیم رکھتا ہے، اس کے علاوہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی تعلیم کردہ دعائیں بھی عظیم معنوی خزانے کی حامل ہیں۔
اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان عظیم گنجینوں سے اس طرح استفادہ کرتے ہیں۔