عیوب کا پوشیدہ رکھنا (حصہ اول)
تحریر : حسین اختر
دین اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ایک بہترین صفت خدا کے بندوں کے عیوب کا پوشیدہ رکھنا ہے، عیوب کا چھپانا عیبجوئی کے برخلاف ہے کیونکہ عیبجوئی جدائی اور دشمنی کا سبب بنتی ہے لیکن عیوب کے چھپانے سے ایک دوسرے کےدرمیان دوستی و محبت پیدا ہوتی ہے اور اطمینان و اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے ،ایک حدیث میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: تم سے جتنا ممکن ہوسکے لوگوں کے عیوب کو چھپاؤ جس طرح سے کہ تمہاری خواہش وآرزو ہوتی ہے کہ خداوندعالم تمہارے عیوب کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم انسان کامل ہونے کی حیثیت سے لوگوں کے عیوب کو چھپاتے تھے اور اپنے چاہنے والوں کو ہمیشہ اس امر کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے تھے: اگر کوئی شخص دنیا میں اپنے مسلمان بھائی کا عیب چھپائے اور اسے لوگوں کے درمیان ذلیل و رسوا نہ کرے تو خداوندعالم قیامت کے دن اس کے عیب کو لوگوں سے پوشیدہ رکھے گا ۔ لہذا ہمیں توجہ رکھنا چاہیئے کہ عیوب کے چھپانے سے مراد ان نقائص و کمی کا ظاہر نہ کرنا ہے جو انسان کے اندر موجود ہے مگر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا تقاضا یہ ہے کہ تنہائی میں اپنے برادر مومن کے عیب سے اسے آگاہ کرے اور اس کے دور کرنے میں اس کی مدد کرے ۔
اسلام کے عظیم رہنماؤں نے عیوب کو چھپانے بالخصوص اعلی حکام کو اس سلسلے میں بہت زیادہ نصیحتیں کی ہیں کہ لوگوں کے عیوب کو چھپائیں، امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک خط میں مالک اشتر کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: معاشرے میں عوام کے اندر بہت سے عیوب پائے جاتے ہیں جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں، اس لئے تم انہیں ظاہر نہ کرنا کیونکہ خداوندعالم خود پوشیدہ امور کا فیصلہ کرتا ہے اور جہاں تک تم سے ممکن ہو سکے لوگوں کے عیوب کو چھپاؤ تاکہ خداوندعالم، تمہارے عیوب کو جس کے بارے میں تمہاری خواہش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے ہمیشہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھےگا ۔ امام علیہ السلام ایک اور مقام پر اعلی حکام کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: دیکھو لوگوں سے ان کے معمولی کاموں کے بارے میں حساب وکتاب نہ کرنا بلکہ پست و حقیر کاموں کو نظر انداز کرکے اپنی عزت و عظمت میں اضافہ کرنا۔
اخلاقی برائیوں میں سے ایک بدترین برائی اپنے عیوب سے غفلت اور دوسروں کے عیوب کا تلاش کرنا ہے جب کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ انسان دوسروں کے عیوب کی تلاش میں مصروف ہو اور وہی عیب اس کے اندر بھی پایا جاتا ہو ۔
عظیم و بزرگ افراد دوسروں کے عیوب تلاش کرنے کے بجائے اپنے عیوب کی جستجو اور اسے ختم کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں، امام علی علیہ السلام اپنے چاہنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خوش نصیب ہے وہ شخص جو اپنے عیوب پر توجہ رکھنے کی وجہ سے لوگوں کے عیوب کو ظاہرکرنے سے محفوظ رہتا ہے، آپ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: جو شخص کسی کا عیب تلاش کرتا ہے اسے چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے عیوب کو تلاش کرے۔ ہمیں جس چیز پر سب سے زيادہ توجہ رکھنی چاہیئے وہ یہ ہے کہ دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے خود ہماری غلطیاں اور لغزشیں بھی ظاہر و آشکار ہوجاتی ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں: کسی پر اعتراض نہ کرو تاکہ تم پر بھی اعتراض نہ کیا جائے کیونکہ جس طرح تم لوگوں کے ساتھ سلوک و برتاؤ کروگے لوگ بھی ویسا ہی سلوک و برتاؤ تمہارے ساتھ کریں گے آخر کیوں تمہیں اپنے دوست کی آنکھوں کا تنکا تو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھوں کا شہتیر نظر نہیں آتا؟