گاؤں 'علی نقی پلم' : سارے باشندے شیعہ اور سب کا پیشہ معماری
ترجمہ و تلخیص: م۔ ہاشم
ہندوستان کی جنوبی ریاست آندھر پردیش کے ضلع کرشنا میں واقع گاؤں "علی نقی پلم" Alinaqipalem میں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس سے پہلے ہی وہاں کے باشندے ہاتھ میں توشہ دان اور اپنے کام کے اوزار اور سازو سامان لئے کام پر نکل جاتے ہیں اور جب سورج غروب ہوتا ہے تو یہ لوگ اپنے گھروں کی طرف لوٹتے ہیں۔ گاؤں کے سارے لوگ تعمیراتی کام کرتے ہیں اور یہی کام کرتے کرتے ان کی کئي نسلیں گزر گئيں۔ چند سال پہلے تک اس گاؤں کے تمام لوگوں کا پیشہ معماری تھا لیکن اب آہستہ آہستہ وہ دوسرے پیشے بھی اختیار کر رہے ہیں۔
اس دور افتادہ اور پُرامن گاؤں کی ایک دیگر خصوصیت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ 450 سے زیادہ خاندانوں پر مشتمل اس گاؤں کے سبھی باشندے شیعہ ہیں۔ آس پاس کے گاؤں والے اس گاؤں کو ترکاپلم(Turakapalem) یا ”مسلمانوں کا گاؤں“ کہتے ہیں۔
گاؤں کی تاریخ کے بارے میں یہاں کے لوگوں میں جو بات مشہور ہے، جو سینہ بسینہ چلی آ رہی ہے، یہ ہے کہ گولکنڈہ کے اُس وقت کے حکمراں ابوالحسن قطب شاہ نے ملا محمد علی نامی ایک شخص کو اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے اصفہان، ایران، سے ہندوستان بلایا۔ یہ کوئی 330 سال پہلے کی بات ہے۔ پھر ملا محمد علی کے بڑے بیٹے حیدر علی نقی اصفہانی اور دو دیگر خاندان کرشنا کے اس علاقہ میں آ کر بس گئے۔ اس کے بعد جلد ہی مزید لوگوں نے اس جگہ کو اپنا مسکن بنا لیا جو بتدریج چھوٹی سی شیعہ بستی میں تبدیل ہوگیا۔ حیدر علی نقی کے ہی نام پر اس گاؤں کا نام ”علی نقی پلم“ پڑ گيا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گاؤں والے مقامی لوگوں کے ساتھ شادی بیاہ کرنے لگے اور ان کی ایرانی شکل و شباہت ختم ہوگئي، اس نے مقامی رنگ روپ لے لیا۔ مذکورہ گاؤں کے لوگ اپنی مادری زبان (فارسی) بھی بھول چکے ہیں اور آج گاؤں کا کوئي بھی فرد فارسی نہیں جانتا۔ ہاں گاؤں کی دو مسجدوں کے امام فارسی و عربی ضرور جانتے ہیں۔
گاؤں کے لوگوں کی زبان اردو ہے اور وہ تیلگو بھی جانتے ہیں۔ آج اس گاؤں میں طرز تعمیر یا ثقافتی لحاظ سے ایرانی اثار باقی نہیں ہیں البتہ گاؤں کی دیواروں پر لوگ مختلف مواقع پر امام خمینی(رح) کے پوسٹر چسپاں کرتے ہیں۔ گاؤں کی ایک سیاسی شخصیت 69 سالہ مرزا محمد علی نے کہا کہ ” امام خمینی ہمارے مذہبی رہنما ہیں۔“
علاج معالجہ کے لئے گاؤں سے 7 کلومیٹر دور ایک سرکاری طبی مرکز ہے جبکہ حاملہ خواتین کو اپنے مسائل کے لئے گاؤں سے 22 کلومیٹر کی دوری پر واقع علاقے ایور یا ایر (Uyyur) جانا پڑتا ہے۔ البتہ روز مرہ مسائل و مشکلات کے حل کے لئے روزانہ ایک ڈاکٹر (آر۔ایم۔ پی(R.M.P. گاؤں میں آتا ہے۔
گاؤں والوں نے اپنی مساجد کو وقف بورڈ کے اختیار میں نہیں دیا ہے بلکہ گاؤں کی مساجد کا انتظام و انصرام گاؤں والوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ گاؤں کے لوگ 200 روپے فی کس کے حساب سے مسجد کو دیتے ہیں۔ گاؤں کی دونوں مسجدوں کا ایک ایک تالاب بھی ہے جہاں مچھلیاں پالی جاتی ہیں اور یہ مچھلیاں ہر سال بیچ دی جاتی ہیں۔ مچھلیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی مسجد کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ مسجد سے تعلق کی وجہ سے اس گاؤں کے باشندگان میں تعمیری سوچ بھی پائي جاتی ہے۔ گاؤں کی ایک مسجد پرانے زمانہ کے تین پیسے کے سکہ کی شکل میں بنائي گئي ہے اور اس کو ”تین پیسہ مسجد“ کہتے ہیں۔
اگرچہ بیشتر گاؤں والوں کی اسکولی تعلیم نامکمل ہے پھر بھی گاؤں کے کچھ نوجوانوں نے انجینیئرنگ اور ڈاکٹری بھی پڑھی ہے نیز غیرممالک میں ملازمت کر رہے ہیں جبکہ بعض نوجوانوں نے پولیس کی ملازمت اختیار کی ہے۔ حالیہ برسوں میں گاؤں کی لڑکیوں نے اپنی تعلیم مکمل کی ہے جن میں سے کچھ نزدیکی گاؤوں میں تدریس بھی کرتی ہیں۔
گاؤں کے ہر گھر میں ٹی وی ہے اور کچھ لوگوں کے پاس اے سی (ایئر کنڈشنر) بھی ہے جبکہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس کار بھی ہے۔ گھروں کے دروازوں پر قرآنی آیات بھی لکھی نظر آتی ہیں۔گاؤں میں جب کوئي شادی ہوتی ہے تو معمر اور مذہبی شخصیات کی سرپرستی میں اجتماع ہوتا ہے اور ہر شخص لڑکی کے خاندان کے ساتھ شادی کے اخراجات کے سلسلہ میں تعاون کرتا ہے۔
(بشکریہ انگریزی اخبار "دی ہندو")