امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر اسلام کی تاکید۔ 3
تحریر: نوید حیدر تقوی
آج کی اس تیسری اور آخری تحریر میں بھی ہم اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور اس کی شرائط کےبارے میں اپنی گذشتہ بحث کو سمیٹیں گے۔
اہل بیت اطہار علیھم السلام کی عملی سیرت کامزید جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کچھ مخصوص آداب و شرائط ہيں ۔ اول تو یہ کہ جو شخص دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے وہ خود اس پر عمل بھی کرتا ہو۔ پہلی صدی ہجری کے ایک دانشور حسن بصری ایک دن لوگوں کے ایک گروہ کے سامنے کھڑے ہوئے تھے اور لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی تلقین اور نصیحت کررہے تھے ۔ فرزند رسولخدا حضرت امام زین العابدین (ع) نے ان کی باتیں سن لیں اور ان سے فرمایا تم جو اس طرح سے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کررہے ہو کیا اپنی موت کے وقت اپنی اس حالت سے ، جو تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان ہے ، راضی رہو گے ؟ حسن بصری نے جواب میں کہا نہیں میں راضی نہیں ہوں گا ۔ امام (ع) نے ان سے دوبارہ سوال کیا ، کیا تم اپنی حالت میں تبدیلی کے خواہاں ہو تاکہ ایک بہترین اور شائستہ حالت کو درک کرسکو ؟ تو حسن بصری نے نفی میں جواب دیا ، امام (ع) نے فرمایا تم جو کہ خود اپنی حالت میں اصلاح کی کوشش نہيں کرنا چاہتے تو پھر کیسے لوگوں کو اچھائی کا حکم دیتے ہو اور انہیں برائی سےروکتے ہو ؟ حسن بصری نے اپنا سر شرمندگي سے جھکا لیا اور پھر اس کے بعد کسی نے انہیں نہیں دیکھا کہ وہ لوگوں کو اس طرح سے نصیحت کرتے ہوں ۔
امربالمعروف کی دیگر اہم شرائط میں سے ایک ، کہ جو گنہگار اور خطا کار فرد میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے ، یہ ہے کہ ایسے فرد کو انتہائی نرمی اور سلجھے ہوئے انداز ميں اچھائیوں کی دعوت دی جائے ۔ اہل بیت اطہارعلیھم السلام اچھائیوں کے بجالانے اور برائیوں سے رکنے کی تلقین انتہائی محبت آمیز لہجے میں کرتے تھے اس طرح سے کہ افراد میں اس کا بہت تیزی سے اثر ہوتا تھا ۔
اہل بیت اطہار علیھم السلام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک اورشرط شجاعت کوقراردیتے ہيں ۔ کبھی ضروری ہوجاتا ہے کہ انسان صحیح تشخیص کے ساتھ حق کا کھل کر اور جراتمندانہ اعلا ن کرے اور انحراف کی راہ میں مانع ہو ۔ چنانچہ ایک دن عباسی حکمراں منصور دوانیقی نے امام صادق (ع) کو ایک مراسلے میں لکھا کہ کیوں دوسروں کی طرح تم ہمارے پاس نہیں آتے اور ہمارے ساتھ نشست و برخاست نہيں کرتے ؟ امام (ع) نے اس کے جواب میں لکھا کہ ہمارے پاس مال دنیا سے کچھ نہیں ہے کہ جس کے سبب میں تجھ سے ڈروں اور تو بھی آخرت میں کسی برتری اور فضیلت کا حامل نہیں ہے کہ میں تجھ سے کوئی امید رکھوں " منصور نے اس مراسلے کو پڑھا اور پھر لکھا " آئیے اور ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تلقین کیجئے۔ امام (ع) نے پھر تند لہجے میں منصور کو خط میں لکھا "جو بھی اہل دنیا ہوگا وہ تجھے نصیحت نہیں کرے گا کیوں تو جو کام بھی چاہتا ہے انجام دیتا ہے اور جو بھی اہل آخرت ہوگا وہ ہدایت کرنے تیرے پاس نہیں آئيگا کیوں کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔"
فرزند رسولخدا حضرت امام محمد باقر (ع) ارشاد فرماتے ہيں " امربالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ایسا امر واجب ہے کہ جس پر دیگر واجبات قائم اور استوار ہوتے ہيں ۔ اب جب کہ اسلام اس طرح سے امر بالعروف اور نہی عن المنکر کی ٹھوس طریقے سے حمایت کررہا ہے، تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ پورے عزم کے ساتھ حق کا اعلان کریں اور انحراف اور برائیوں کا معاشرے سے سد باب کریں تاکہ اسلامی معاشرہ ہر طرح کے اخلاقی زوال و انحطاط سے محفوظ رہے اور حیات طیبہ اور پاک و پاکیزہ زندگي کی ضمانت فراہم کرے۔