Mar ۱۵, ۲۰۱۷ ۲۳:۴۰ Asia/Tehran
  • تہمت، ایک خطرناک نفسیاتی بیماری

تحریر : حسین اختر رضوی

دین اسلام نے ہمیشہ اپنی پیروی کرنے والوں کو دوستی و محبت کا درس دیا ہے، اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کیا ہے اور انسانوں کو گناہوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔ گناہان کبیرہ میں سے ایک گناہ جوانسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، تہمت ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر تہمت لگاتا ہے تو وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ خود اپنے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کرلیتا ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر تہمت ہے کیا ؟ تہمت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کسی کی طرف ایسے عیب کی نسبت دے جو اس کے اندر نہ پائے جاتے ہوں۔ تہمت گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے اور قرآن کریم نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئےاس کے لئے سخت عذاب کا ذکر کیا ہے۔ فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: بے گناہ پر تہمت لگانا عظیم پہاڑوں سے بھی زیادہ سنگین ہے۔  درحقیقت تہمت و بہتان، جھوٹ کی بدترین قسموں میں سے ہے اور اگر یہی بہتان، انسان کی عدم موجودگی میں اس پر لگایا جا‏ئے تو وہ غیبت شمار ہوگی اور در اصل اس نے دو گناہ انجام دیئے ہیں۔

ایک دن فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک چاہنے والے آپ کے ساتھ کہیں جارہے تھے اور ان کے غلام ان سے آگے بڑھ گئے تھے انھوں نے اپنے غلاموں کو آواز دی لیکن غلاموں نے کوئی جواب نہ دیا انھوں نے تین مرتبہ انہیں آواز دی لیکن جب ان کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا تو یہ شخص غصے سے چراغ پا ہوگیا اور اپنے غلاموں کو گالیاں دیں جودر حقیقت اس کی ماں پر تہمت تھی۔

راوی کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے جب ان غیر شائستہ الفاظ کو سنا تو بہت زیادہ ناراض ہوئے اور اسے ان غیر مہذب  الفاظ کی جانب متوجہ کرایا مگر اس نے غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے توجیہیں کرنا شروع کردیں جب امام علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ اپنی غلطی پرنادم نہیں ہے توآپ نے فرمایا: کہ تجھے اب  اس بات کا حق نہیں کہ میرے ساتھ رہے۔ 

جی ہاں، تہمت معاشرے کی سلامتی کوجلد یا بدیرنقصان پہنچاتی ہے اور سماجی انصاف کو ختم کردیتی ہے ، حق کو باطل اور باطل کو حق بناکر پیش کرتی ہے ، تہمت انسان کو بغیر کسی جرم کے مجرم بناکر اس کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیتی ہے ۔ اگر معاشرے میں تہمت کا رواج عام ہوجائے اور عوام تہمت کو قبول کرکے اس پر یقین کرلیں تو حق ، باطل کے لباس میں اور باطل حق کے لباس میں نظر آئے گا۔

وہ معاشرہ، جس میں تہمت کا رواج عام ہوگا اس میں حسن ظن کو سوئے ظن کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ جائے گا اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا یعنی پھر ہر شخص کے اندر یہ جرات پیدا ہوجائے گی کہ وہ جس کے خلاف  جو بھی چاہے گا زبان پر لائے گا اور اس پر جھوٹ ،  بہتان اور الزام لگا دے گا۔لہذا انسان کو چاہیئے کہ تہمت جیسی بدترین نفسیاتی بیماری سے خود کو محفوظ رکھے اور دوسروں کو بھی ایسے گناہ انجام دینے سے منع کریں ورنہ اگر یہ نفسیاتی بیماری معاشرے میں پھیل گئی تو رفتہ رفتہ پورا معاشرہ بربادہ ہوجائے گا پھر نہ کوئي کسی پر اعتماد کرے گا اور نہ ہی بھروسہ اور پھر ایک بدترین ماحول پیدا ہوجائے گا جس کی وجہ سے انسانیت کا وقار ختم ہوجائے گا اور برائی کا چلن عام ہوجائے گا۔

ٹیگس