نوروز ۔ بہارزندگی ۔ بہار ایمان
تحریر: مولانا ولی الحسن رضوی
خدامند متعال کا ہزار شکر کہ اس نے ہم سب کو ایک بار پھر موسم بہار سے لطف اندوز ہونے کا موقع عنایت فرمایا اور ہم سب یہ حسین و دلنواز بہار کہ جس کو معرفت حق کی دیدہ زیب کتاب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اپنی نگاہوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ یہ بہترین زمانہ ہے کہ ہم اپنے ارد گرد بکھری خدا کی نشانیاں دیکھیں اور عالم ہستی کی جلوہ سامانیوں پر تدبر اور غور و فکر کریں ۔
نوروز کی بہاریں زمین کے چپے چپے سے آشکار ہیں، ذرے ذرے اپنی مخصوص زبان میں مالک ہستی کے نغمے گنگنا رہے ہیں۔ جس طرف نگاہ اٹھائیے موسم بہار کی صورت میں توحید و معرفت کی رنگینیاں بکھری ہوئی ہیں: سرخ و گلابی، زرد اور سفید آسمان و زعفرانی۔ رنگ برنگے پھول اور پھل حد نظر تک کھلے اور پھلے ہوئے ہیں، امیر و غریب، مرد عورت ، جوان اور بوڑھے سبھی قلب ونظر کی گہرائیوں کے ساتھ مسرت و شادمانی میں غرق اپنے پروردگار کا شکرادا کر رہے ہیں ۔
نوروز کی بہار عجیب و غریب عطر آگین ماحول کے ساتھ نمایاں ہوتی اور دل و دماغ کو گرما اور برما دیتی ہے۔ کوہ و دشت و صحرا میں ہر طرف لالہ و گل سے سجی، نرم و لطیف پھولوں کی چادریں اوڑھے عروس فطرت کو دیکھ کر نرگس کی نگاہیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ دور سے ہلکا نیلا آسمان مستانہ وار اس طرح چہل قدمی کرتا نظر آتا ہے کہ گویا عروس زندگی نے اس کو بھی اپنی طرف ملتفت کرلیا ہو۔ کوہساروں سے ابلتے جھرنوں کی آواز ایک نئی حیات کا مژدہ سناتی ہے۔ سرزمین نوروز پر بچھے سبز مخملی بستر، شہر فطرت کی تمام راہیوں کو یہاں تھوڑی دیر ٹھہر کر آرام و سکون کے ساتھ وادی معرفت میں کھوجانے کی دعوت دیتے ہیں۔ شاخساروں پر بیٹھی غمگین و اداس بلبلیں اپنے طرب انگیز نغموں سے فضائے عشق و آگہی میں موسیقی کے رس گھول دیتی ہیں۔ شگوفے کھل اٹھتے اور غنچہ و گل جھوم جھوم کر رقص کرنے لگتے ہیں اور سبز پتوں کی تالیوں کی گونج مدتوں سے کھڑے کھڑے سوجانے والے درختوں کو بھی بیدار کردیتی ہے۔
نہریں اور دریا درختوں کے سجادے بن جاتے ہیں: بہتے پانی میں عکس جمال پروردگار ستاروں کو سجدہ ریز کردیتا ہے اور موسم بہار کا یہ منظر ’’والنجم والشجر یسجدان ‘‘ کی تفسیر پیش کرتا ہے ۔
ہم نے نوروز کی ان خوشنما راتوں میں بارہا دیکھا ہے کہ بلند و بالا درخت دعاؤں اور مناجات کے لئے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کردیتے ہیں، یہ بہاری درخت اتنے متواضع اور مہمان نواز ہیں کہ گھونسلوں سے محروم، مسافر و مہاجر سیکڑوں پرندوں کو نہایت ہی وسیع القلبی کے ساتھ محفوظ و مطمئن آشیانہ فراہم کردیتے ہیں ۔
اے کاش کہ موسم بہار ہم کو بھی سر سبز و شاداب درختوں کی مانند اپنے معبود کی معرفت اور عشق و محبت کی گرمی عطا کردیتا، کیونکہ
برگ درختان سبز در نظر ہوشیار ھر ورقش دفتری است معرفت کردگار
جی ہاں ! بہار یعنی نوروز، نوروز یعنی نیا دن، نیا دن یعنی نئے شب و روز، نئی زندگی اور نئی حیات، ایک نیا آغاز، ترو تازہ شروعات، نئے ایام نئے ہفتے، نیا مہینہ اور نیا سال، نئی حرکت اور نئی جنبش، نئی تفسیر اور نیا انقلاب نیا دل اور نئی نگاہ ۔
یا مقلب القلوب والابصار ،
یا مدبر اللیل و النہار
یا محول الحول و الاحوال
حول حالنا الی احسن الحال
اے دلوں اور نگاہوں کو منقلب کردینے والے! ہمارے دلوں اور نگاہوں کو بھی حجت حق کے عشق و دیدار کے ذریعے منقلب کردے، اے لیل و نہار کو قوانین فطرت کا جامہ پہنانے والے! ہم کو بھی اسلام کے فطری قوانین کی پابندی اور عمل کی توفیق عطا فرما، اے حالات زمانہ کو بہترین حالات میں تبدیل کرنے والے! ہم اہل اسلام کے حالات کو بھی بہترین حالات میں تبدیل کردے، خاص طور پر عراق، شام، بحرین، یمن اور فلسطین کے مظلوم، محروم، مقہور، مجبور اور محصور مسلمانوں کو عالمی سامراج اور اس کے آلہ کار خیانت کاروں، تکفیریوں، زلہ خواروں، بے غیرتوں اور ضمیر فروشوں کی سازشوں، فتنہ انگیزیوں اور شرمناک جرائم اور خباثتوں سے نجات عطا فرما کر عزت و سرفرازی کی روشن و تابناک، آزاد و خودمختار زندگی عنایت کردے ۔
البتہ یاد رہے لطف پروردگار کے تحت نئی تبدیلیوں سے بھر پور لطف اٹھانے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح اسلامی ولایت و حکومت کے سائے میں اپنے درخت وجود کو بھی خزاں رسیدہ پتوں سے خالی کرنا ہوگا ۔ دل و دماغ میں جلنے والی خود غرضی اور کینہ و حسد کی آگ بجھانی ہوگی۔ حریصانہ کدورتوں اور آمرانہ خواہشوں پر قابو پانا ہوگا، تا کہ اِس سے انانیت کے بجائے للہیت کی کونپلیں پھوٹیں۔ احساس کمتری کے بجائے زندگی میں خود اعتمادی اور توکل کی حیات کا نیا رنگ اور آہنگ پیدا ہو اور خدا کی بندگی کی ٹہنیاں عشق رسول اور محبت اہلبیت ؑکے پھولوں اور پھلوں سے مہک اور چہک اٹھیں ورنہ دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو عالم فطرت سے لطف اندوز ہوئے ہیں، بہتے دریاؤں اور جھیلوں کے نغمے گاتے ہیں۔ چمن زاروں میں گل و بلبل کے ہجر و وصال کی داستانیں گنگناتے ہیں۔ کوں ایسا ہے جو سر سبز و شاداب باغات میں رنگ برنگی تتلیوں کے نظاروں سے مسرت و شادمانی محسوس نہ کرتا ہو؟ کون ہے جو اچھے لباس، اچھی غذائیں، اچھے پھل پھول، اچھے موسم اور اچھے شب و روز سے مسرور و شادماں نہ ہوتا ہو؟ اور جب ایسا ہے تو ہماری بہار اور اُن کی بہار میں کیا فرق رہ جائے گا؟ ہماری بہار، ہماری عید، ہماری خوشی حتی ہمارے غم دنیا سے الگ ہیں ہماری بہار، ایمان و یقین کی تازگی اور پختگی کا وسیلہ ہے۔ ہماری خوشی محمد و آل محمد علیہم السلام کی خوشی اور ہمارا غم بھی خدا اور خاصان خدا کی رضا و خوشنودی سے وابستہ ہے۔
موسم بہار کے آتے ہی کھڑکیاں کھول دی جاتی ہیں، آپ بھی اپنے دلوں کی کھڑکیاں کھول دیں اور معرفت پروردگار کی نگاہوں سے خوبیوں اور مہربانیوں کو اپنے وجود میں جذب کریں۔ عالم فطرت انسانی زندگی کا انعکاس اور مظہر ہے۔ قدرت کی زیبائیوں سے اپنی طبیعت اور اپنے مزاج میں تر و تازگی پیدا کیجیئے ۔
بہار و گل طرب انگیز گشت و توبہ شکن بہ شادی رخِ گل بیخِ غم زِ دل بر کن
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نسیم بہار کو اپنے لئے غنیمت سمجھیں کیونکہ وہ آپ کے جسم و بدن کے ساتھ بھی وہی کرتی ہے جو درختوں کے ساتھ کرتی ہے یعنی جس طرح درختوں کو ہرا بھرا کردیتی ہے نسیم کے جھونکے انسان کے بدن کو تر و تازہ کرتے ہیں ۔
چنانچہ بہار وہی ہے جو انسان کی زندگی کو تر و تازہ کردے:
اے انکہ بہ تدبیر تو گردد ایام اے دیدہ وری از تو دگرگوں مادام
اے آنکہ بہ دست تو ست احوال جہان حکمی فرما کہ گردد ایام بہ کام
نبی اکرم نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے:
جب بھی موسم بہار کا انتظار کریں روز قیامت کو زیادہ سے زیادہ یاد کریں ۔
در اصل موسم بہار سال بہ سال ایک نئی بیداری یا دوسرے لفظوں میں فطرتی موت کے بعد ایک وسیع و ابدی اعلی و اکمل حیات کے لئے اٹھائے جانے کا پیغام دیتی ہے اور اس حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہے کہ یہ زندگی موت پر ختم نہیں ہوتی بلکہ موت کے بعد ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔
قرآن کریم میں بھی متعدد مقامات پر زمین کی حیات نو کا ذکر ہوا ہے چنانچہ سورہ حج کی پانچویں اور چھٹی آیت میں پیڑ پودوں کی تجدید حیات اور زمین افسردہ کی نئی حرکت کا ذکر کرنے کے بعد، اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ خدا حق مطلق ہے اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا اس کے دست قدرت میں ہے کیونکہ وہ ہر شی پر قدرت رکھتا ہے ۔
اسی لئے موسم بہار کے آغاز کو نوروز کا نام دیا گیا ہے کہ جس طرح خزان رسیدہ درخت نسیم کی بہار کے جھونکوں سے ترو تازہ ہرے بھرے ہوجاتے ہیں، انسان بھی نئے عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ تر و تازہ سرمست و سرشار ہوجائے اور خود کو اپنے عزیزوں اور دوستوں کو اپنے ماحول اور معاشرے کو پھولوں کی خوشبوؤں کے ساتھ اپنے مشام حیات کو انسانیت و ہمدردی، اخلاص و محبت، ایثار و وفاداری، سچائی اور پاکیزگی کی عطر آگین ہواؤں سے معطر کرے ۔