یادگار کربلا حضرت سجاد علیہ السلام
آج دنیا بھر میں فرزند رسول اور یادگار کربلا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا یوم شہادت خاص عقیدت و احترام کے ساتھ منایاجا رہا ہے۔
آسمان امامت و ولایت کے درخشاں ستارے فرزند رسول اور شیعیان جہان کے چوتھے امام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت اور اہل حرم کی اسیری کی یاد میں پورے اسلامی جمہوریہ ایران کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں مجالس عزا اور نوحہ و ماتم کا سلسلہ جاری ہے۔
ایران کے علاوہ عراق، شام، بحرین، افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور دیگر ملکوں میں بھی آسمان امامت و ولایت کے چوتھے درخشاں ستارے امام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت پر عاشقان نبی و آل نبی علیہم السلام عزاداری میں مصروف ہیں۔
آپ کی تاریخ شہادت کے سلسلے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں تاہم سبھی تواریخ محرم میں ذکر ہوئی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ۱۲ محرم، بعض کے مطابق ۱۸ محرم جبکہ بعض روایات کی بنا پر ۲۵ محرم کو آپ کی شہادت واقع ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ بعض روایات کے آپ کے سالِ شہادت کو ۹۴ ہجری جبکہ بعض نے ۹۵ ہجری نقل کیا ہے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ستاون برس کی تھی۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام نے، جو واقعہ عاشورا کے موقع پر بیمار تھے، عاشورا کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم تحریک کا سنگین بار اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور بعدِ کربلا خونخوار اموی حکام کے ایجاد کردہ گھٹن کے ماحول میں بھی آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے پیغام اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام انتہائی خوش اسلوبی اور باکمال طریقے سے انجام دیا اور تحریک عاشورا کے مقصد اور اس کے بنیادی فلسفے کو دنیا کے سامنے بڑے انوکھے اور منفرد انداز میں واضح فرمایا۔
آپ نے واقعۂ کربلا کے بعد اپنی حیات طیبہ میں اپنے آنسو اور گریے کو تبلیغ دین کے ایک موثر ذریعے کے طور پر استعمال کیا اور دین اسلام کے عظیم معارف کو آفاقی دعاؤں کے پیرائے میں دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔
امام حسین علیہ السلام کے فرزند حضرت سجاد علیہ السلام اپنے سجدوں اور انداز عبادت کے سبب عالم اسلام میں ایک منفرد حیثیت کے حامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ کو زین العابدین اور سید الساجدین جیسے عظیم القاب سے نوازا گیا اور آپ کو دنیا آپ کے نام سے زیادہ آپ کے القاب سے پہچانتی ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی ذات گرامی نے ایسے دو گرانقدر شاہکار بشریت کے حوالے کئے ہیں جن پر عالم اسلام کو ناز ہے۔
ایک رسالۃ الحقوق کے نام سے معروف ہے جس میں آپ نے زندگی کے انفرادی، اجتماعی، عائلی، سیاسی اور حتیٰ عبادی نقطہ نظر سے انسان پر عائد ہونے والے اُن حقوق کا ذکر فرمایا ہے جسکی ادائگی انسان کے فرائض میں شامل کی گئی ہے۔ اس گرانقدر مجموعے میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے پچاس اہم حقوق کی جانب انسان کی توجہ دلائی ہے۔
اسکے علاوہ آپکی ایک اور گرانقیمت یادگار ہے جسے عالم اسلام صحیفہ سجادیہ کے نام سے پہچانتی ہے۔ اس بابرکت مجموعے میں عظیم اسلامی معارف کے بحرِ بیکراں کو سمیٹے ہوئے چوّن دعائیں موجود ہیں جن کے ذریعے ہر دور میں معنویت، حقیقت، علم و آگہی اور عرفان کے پیاسے بشر کو آب حیات کے چشمے نصیب ہو رہے ہیں۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک حدیث شریف میں ارشاد فرماتے ہیں: «عَجَباً کُلّ الْعَجَبِ لِمَنْ عَمِلَ لِدارِ الْفَناءِ وَتَرَکَ دارَ الْبقاء»؛ مجھے بڑا تعجب ہے اُس شخص پر جو فنا ہو جانے والی دنیا کے لئے تو خوب کام کرتا ہے مگر باقی رہنے والی دنیا کے لئے نکمہ ہو جاتا ہے اور کچھ نہیں کرتا۔ (بحارالأنوار: ج 73، ص 127، ح 128)