امریکا میں نئے صدر جو بائیڈن کی حلف برداری کے بعد انتہا پسند گروہوں نے ملک کے کئی شہروں میں پر تشدد مظاہرے کئے اور بائیڈن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے خلاف نعرے لگائے۔
امریکہ میں نئی حکومت کے آغاز اور جو بائیدن کی تقریب حلف برداری کے ساتھ ہی اس ملک کی خارجہ پالیسی میں ظاہری تبدیلی کے بظاہر آثار دکھائی دے رہے ہیں تاہم اس میں تبدیلی کے طریقہ کار کے حوالے سے ٹھوس شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
لبنان کے ایک تجزیہ نگار نے ایک عراقی ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے شام اور عراق میں نئی جنگ شروع کرنے کے واشنگٹن کے پروگرام کا انکشاف کیا ہے۔
برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ میں پیٹریک کوبرن کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے جن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے امریکا میں جو تباہی مچا دی ہے اس سے سنبھل پانا بہت سخت ہوگا۔
امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ وہ گزشتہ کچھ عشروں ميں امریکا کے ایک ایسے صدر رہے ہیں جس نے کسی نئی جنگ کا آغاز نہیں کیا اور جنرل قاسم سلیمانی کا قتل ان کی حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
ساڑھے تین سال کے نشیب و فراز کے بعد آخرکار قطر کے محاصرے کا معاملہ، محاصرہ کرنے والے ممالک یعنی سعودی عرب، بحرین، امارات اور مصر کی جانب سے سفید پرچم بلند کیے جانے کے بعد ختم ہو گيا۔
امریکی وزارت خزانہ نے ٹرمپ حکومت کے آخری دنوں میں عراقی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے سربراہ فالح الفیاض پر پابندی عائد کر دی ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی سربراہ نینسی پیلوسی نے کہا ہے کہ انھوں نے وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں سے بات کی ہے تاکہ ٹرمپ کی صدارت کے باقی بچے دو ہفتوں میں ان کی جانب سے فوجی یا ایٹمی حملے جیسے دیوانگی بھرے اقدامات کو روکا جا سکے۔
ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادیوں کو آگے کر کے ان کو اپنے لیے ڈھال بنانے کی پالیسی اختیار کی اور ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ حکومت کے آخری دنوں میں جنوبی کوریا اس شکست خوردہ پالیسی کی بھینٹ چڑھ گيا ہے۔
امریکی کانگریس پر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے نے امریکہ کی حقیقت پوری دنیا پر عیاں کر دی ہے کیونکہ اس ملک کے حکام ہمیشہ ہی مغربی ایشیا کے حالات و واقعات کو وحشیانہ، بے رحمانہ اور غیر جمہوری بتاتے رہے ہیں۔