کیا امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے؟ (تبصرہ)
امریکہ میں نئی حکومت کے آغاز اور جو بائیدن کی تقریب حلف برداری کے ساتھ ہی اس ملک کی خارجہ پالیسی میں ظاہری تبدیلی کے بظاہر آثار دکھائی دے رہے ہیں تاہم اس میں تبدیلی کے طریقہ کار کے حوالے سے ٹھوس شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کے دور اقتدار میں عالمی سطح پر بری طرح سے مسخ ہو چکے امریکی چہرے کو بہتر بنانے کے لئے ظاہراً نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے بیڑہ اٹھایا ہے، تاہم اس حوالے سے بہت زیادہ ابہامات اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
اصل سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا بائیڈن انتظامیہ ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے اور وینیزویلا اور شمالی کوریا کے بارے میں واشنگٹن کی پالیسی سمیت خارجہ پالیسی کے بنیادی ایجنڈے اور بین الاقوامی معاملات کے بارے میں وائٹ ہاوس کی سوچ تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔
جو بائیڈن اور ان کی ٹیم کے اعلی عہدیداروں کے موقف کا جائزہ لیا جائے تو اس سوال کا جواب منفی دکھائی دیتا ہے۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کے زیادہ تر معاملات ثابت اور ایک اسٹریٹیجی کے تحت ہیں اور ان میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں کی جاسکتی لہذا خارجہ پالیسی کے حوالے سے امریکی صدور کے درمیان صرف طریقۂ کار اور ٹیکٹک کا ہی فرق دکھائی دیتا ہے۔
مثال کے طور پر ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ بھی ٹرمپ حکومت کی طرح ، ایران کے خلاف الزام تراشی کرتے ہوئے ایٹمی پابندیوں کو شدید تر کرنے اور مستقبل میں کسی بھی قسم کے مذاکرات میں ایران کے میزائل پروگرام اور علاقائی کردار کو شامل کیے جانے کی بات کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بلی تھیلے سے باہر آ گئی، بائیڈن کے وزیر خارجہ نے نئی حکومت کی حقیقت عیاں کر دی
ہرحال میں اسرائیل کی حمایت جاری رکھنا بھی امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک ایسا عنصر ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بائیڈن انتظامیہ بھی اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان گٹھ جوڑ اور تعلقات کی بحالی کے ایجنڈے کو جاری رکھے گی۔
معیشت میں گراوٹ، بجٹ خسارے اور قومی قرضے میں ریکارڈ توڑ اضافہ، نسل پرستانہ سوچ کی تقویت اور پروٹیکشن ازم کے مطالبات، ایسے عوامل ہیں جو سن دوہزار سولہ میں صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کا باعث بنے تھے اور یہ عوامل بدستور باقی ہیں بلکہ ٹرمپ کے دور میں ان میں مزید شدت پیدا ہوئی۔ لہذا یہ بات بعید دکھائی دیتی ہے کہ صدر جو بائیڈن امریکہ کی عالمی ذمہ داریوں اور اپنے اتحادیوں کی حمایت کے حوالے سے بہت زیادہ تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔