اقوام متحدہ میں میانمار کا جھوٹا دعوی
اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر نے دعوی کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسل کشی اور قومی تطہیر پر مبنی کوئی اقدام انجام نہیں پایا ہے۔ انھوں نے یہ مضحکہ خیز دعوی بھی کیا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہے۔
اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر ہاؤ دو سوان نے منگل کے روز دعوی کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی کوئی نسل کشی نہیں ہوئی ہے اور ان کے ملک بدر ہونے کی اصل وجہ ان میں پایا جانے والا خوف و ہراس ہے۔
انھوں نے ان ملکوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جنھوں نے کہا ہے کہ صوبے راخین میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی ہے۔ انھوں نے اسی طرح صوبے راخین کے مسئلے کو بہت زیادہ پیچیدہ قرار دیا اور اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ راخین کی صورت حال کو حقیقت کی بنیاد پرغیرجانبدار ہو کر دیکھے۔
ہاؤ دو سوان نے یہ مضحکہ خیز دعوی بھی کیا کہ ان کا ملک دہشتگردی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ انھوں نے یہ دعوی ایسی حالت میں کیا ہے کہ بیشتر ممالک اور عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں منجملہ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حالیہ دنوں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانماری فوج اور انتہا پسند بودھسٹوں کے جرائم کی مذمت کی ہے اور انھیں اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور کئے جانے کو قومی تطہیر سے تعبیرکیا ہے۔
صوبے راخین میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی جارحانہ کارروائیوں میں چھے ہزار سے زائد افراد جاں بحق اورآٹھ ہزار دیگر زخمی ہوئے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں دیگر روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔
دوسری جانب حکومت ہندوستان نے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے سرحدوں پر نگرانی کا عمل تیز کر دیا ہے۔
ہندوستان کی وزارت داخلہ کے ایک اعلی عہدیدار کے مطابق ہندوستان، میانمار سے ملنے والی اپنی سرحدی ریاستوں منجملہ میزورام، منی پور، ارونا چل پردیش اور ناگالینڈ میں سیکورٹی کی صورت حال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ہندوستان کی حکومت، ہندوستان میں داخل ہونے والے چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس سے قبل ہندوستان کے وزیر داخلہ راجناتھہ سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان میں روہنگیا مسلمانوں کا داخلہ غیر قانونی ہے جنھیں ملک سے نکالے جانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ حکومت ہندوستان کے اس فیصلے کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے سخت ہدف تنقید بنایا تھا۔