Sep ۰۷, ۲۰۱۵ ۱۵:۱۹ Asia/Tehran
  • یونان میں سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت
    یونان میں سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت

یونان میں سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت

یونانی شہریوں نے یونان کی عالمی نمائش کے اطراف کی سڑکوں پراجتماع کرکے سرمایہ دارانہ نظام اور یورپی یونین کے خلاف مظاہرے کئے۔ یونانی میڈیا نے شمالی شہر تسالونیک سے رپورٹ دی ہے کہ اس شہر میں ہفتے کے دن بین الاقوامی نمائش کی افتتاحیہ تقریب کے موقع پر سرمایہ دارانہ نظام اور یورپی یونین کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔

اس شہرمیں ہزاروں یونانی باشندوں نے مرکزی سڑکوں پر اجتماع کرکے یونان کے تعلق سے یورپی یونین کی پالیسیوں کی مذمت کی۔ مظاہرین نے اس موقع پر جبکہ شہر تسالونیک میں عالمی نمائش کی افتتاحیہ تقریب میں صدر پروکپیش پلوپلس موجود تھے نعرے لگا کر یہ مطالبہ کیا کہ یونانی حکام یورپی یونین اور قرضہ دینے والے بین الاقوامی اداروں کی شرطوں پر عمل نہ کریں۔ مظاہرین نے یورپی یونین اور سرمایہ دارانہ نظام کو اپنے ملک کے مالیاتی بحران کا بنیادی سبب قراردیا اور اپنےملک میں سرکاری اخراجات کم کرنے کی پالیسیوں کی مذمت کی۔

یونان کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ دیمتری کوجوباس جو مظاہرین کے آگے آگے چل رہے تھے انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اور سرمایہ دارانہ نظام صرف اپنے مفادات کی فکر میں ہے اور یونان کو مالی اور اقتصادی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ یورپی یونین اور سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل کرنا ہے۔ یہ مظاہرے ایسے عالم میں ہوئے ہیں کہ یونانی عوام کو بیس ستمبر کو قبل از وقت عام انتخابات میں شرکت کرنا ہوگي تاکہ آئندہ حکومت قائم ہوسکے۔

یونان کے وزیراعظم الیکسیس سیپراس نے بیس اگست کو استعفی دیدیا تھا تا کہ وہ قبل از وقت کرائے جانے والے انتخابات میں ایک بار پھر کامیاب ہوکر دوبارہ وزیر اعظم بن جائيں اور زیادہ طاقت کے ساتھ یورپی یونین ، یورپین سنٹرل بینک اور آئي ایم ایف کے ساتھ نئے قرضے لینے کی دراخواستوں کو آگے بڑھاسکیں۔ البتہ تازہ ترین سروے کے مطابق سیریزا پارٹی کے حامیوں میں کمی آئي ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پارٹی کو اگرچہ اپنی رقیب پارٹی یعنی نیو ڈیموکریٹک پارٹی سے زیادہ ووٹ ملیں گے لیکن وہ اکیلے حکومت تشکیل نہیں دے پائے گي۔

اس سے  پہلے انجام دئے گئے سرویز سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ آج بھی سیپراس ہی ووٹروں کے مقبول امید وار ہیں کیونکہ انہوں نے کم از کم مذاکرات میں نئے پکیج کے لئے کوشش کی تھیں۔ سیپراس کو دوہزار پندرہ میں وزارت عظمی ملی تھی اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سرکاری خرچے کم کرنے کی حکومت کی پالیسیوں کو ختم کردیں گے کیونکہ ان کا ملک معاشی جمود اور بے روزگاری کے مسائل سے دوچار ہے لیکن انہیں بھی آخر کار چھیاسی ارب یورو کا مالیاتی پکیج لینے کے لئے سرکاری اخراجات کم کرنے کی پالیسیوں کو تسیلم کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے آخری بیان میں اس امکان کو مسترد کیا ہے کہ آئندہ انتخابات بے نتیجہ رہیں گے۔
سیپراس نے ایک بار پھر اپنے اقدامات کا دفاع کیا اور کہا کہ یونان اگر عالمی امدادی پکیج قبول نہیں کرے گا تو مزید برے حالات کا شکار ہوجائے گا۔  

ٹیگس