وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کی ہسپانوی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس
Sep ۱۲, ۲۰۱۵ ۱۲:۵۴ Asia/Tehran
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے تہران میں اپنے ہسپانوی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں شام کے عوام کی آوارہ وطنی اور پناہ گزینی کی بنیادی وجہ کے بارے میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کے بیان کا جواب دیا۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ جن لوگوں نے شام کے صدر کے لئے شرطیں رکھی ہیں وہی لوگ گذشتہ دو برسوں میں اس بات کا باعث بنے ہوئے ہیں کہ شام میں جنگ جاری رہے اور وہ شام میں جاری خونریزی کے ذمہ دار ہیں۔ محمد جواد ظریف نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ شام کے ہمسایہ ممالک سے جو نعرے سنائي دے رہے ہیں ان سے شام میں امن قائم نہیں ہوگا بلکہ یہ ممالک دہشتگردوں کو اپنی سرزمین سے شام پرحملہ کرنے کی روک تھام کرکے شام کے بحران کو حل کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ٹی وی پرایک انٹرویومیں نیٹومیں اپنے یورپی اتحادیوں پرپی کےکے گروپ کی حمایت کاالزام لگایا اور شام میں جاری بحران میں ترکی کے جنگ کی آگ بھڑکانے
والے کرداراور اسکی جانب سے دہشتگردوں کی حمایت پر پردہ ڈالنے کے لئے شام کے حامیوں
جیسے ایران اورروس کو یورپ میں سامنے آنے والے پناہ گزینوں کے بحران کا ذمہ دارقرار
دیا۔ اردوغان نے دعوی کیا کہ یہ ممالک ہرگز شام کے حالات میں ثالثی کرنے کے حق میں
نہیں ہیں بلکہ انہوں نے ہمیشہ بشار اسد کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے ہرگز اس بات پر توجہ
نہیں دی ہے کہ کس طرح شام کے ظالم سربراہ کو اقتدار سے ہٹایاجاسکتا ہے۔
واضح رہے ترک حکومت داخلی اور بیرونی سطح پر معیشتی، سیاسی اور سیکورٹی بحران سے دوچار ہے اور ترک صدر نے ان بحرانوں کے وجود میں آنے میں اپنےمنفی کردارکو نظرانداز کرتے ہوئے دوسروں کو مورد الزام ٹہرانا شروع کردیا ہے۔ دوہزار دو میں اردوغان کی سربراہی میں جس حکومت نے ترکی میں اقتدار سنبھالا تھا اور جس نے اپنے ہمسایہ ملکوں کےساتھ مسائل کو مکمل طرح سے ختم کرنے کے دعوے کئے تھے اب شام و عراق کے لئے دہشتگردوں کو بھیجنے کا ٹرانزیٹ مرکز بن گيا ہے اور یہ بہانہ کررہا ہے کہ وہ یہ کام شام میں صدر بشار اسد کی ظالم حکومت کے خلاف جدوجہد کے لئے انجام دے رہا ہے۔ اردوغان صاحب شام کی قوم کے ہمدرد بن چکے ہیں اور بشار اسد کے ظلم و جور نیز ان کے حق میں ایران اور روس کی حمایت کی بات کررہے ہیں لیکن وہ شام کی تباہی اور گيارہ ملین شامی باشندوں کی آوارہ وطنی نیز ڈھائي لاکھ شامی باشندوں کے مارے جانے کا کوئي ذکر نہيں کرتے۔
واضح رہے ترک حکومت داخلی اور بیرونی سطح پر معیشتی، سیاسی اور سیکورٹی بحران سے دوچار ہے اور ترک صدر نے ان بحرانوں کے وجود میں آنے میں اپنےمنفی کردارکو نظرانداز کرتے ہوئے دوسروں کو مورد الزام ٹہرانا شروع کردیا ہے۔ دوہزار دو میں اردوغان کی سربراہی میں جس حکومت نے ترکی میں اقتدار سنبھالا تھا اور جس نے اپنے ہمسایہ ملکوں کےساتھ مسائل کو مکمل طرح سے ختم کرنے کے دعوے کئے تھے اب شام و عراق کے لئے دہشتگردوں کو بھیجنے کا ٹرانزیٹ مرکز بن گيا ہے اور یہ بہانہ کررہا ہے کہ وہ یہ کام شام میں صدر بشار اسد کی ظالم حکومت کے خلاف جدوجہد کے لئے انجام دے رہا ہے۔ اردوغان صاحب شام کی قوم کے ہمدرد بن چکے ہیں اور بشار اسد کے ظلم و جور نیز ان کے حق میں ایران اور روس کی حمایت کی بات کررہے ہیں لیکن وہ شام کی تباہی اور گيارہ ملین شامی باشندوں کی آوارہ وطنی نیز ڈھائي لاکھ شامی باشندوں کے مارے جانے کا کوئي ذکر نہيں کرتے۔
ہر ملک کی تقدیر
کا فیصلہ کرنا اس کی قوم کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ اردوغان اور ترکی کا کوئي
بھی باشندہ اپنے ملک کے داخلی امور اور قومی اقتدار میں مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا اسی طرح اپنے ملک
کی تقدیر کا فیصلہ کرنا شام کے عوام کی ذمہ داری ہے۔ ایران اور روس دنیا کے منظم ترین
دہشتگردوں کے مقابلے میں شام کے عوام کی حمایت کررہے ہیں۔ اگر ایران اور روس کی حمایت
نہ ہوتی تو آج نہ معلوم شام کے عوام کس مصیبت
میں گرفتار ہوتے۔ اس وقت شام کے بحران میں اب اصل مسئلہ صدر بشار اسد نہیں ہیں۔
ہر
حکمران میں مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ اردوغان کی باتوں سے ظاہر ہے کہ وہ بشار اسد
کو ظالم قراردے کرنیز ان کے حق میں ایران اور روس کی حمایت کا رونا رو کر ایسے بحران
کی حقیقت کو چھپانا چاہتے ہیں کہ جس نے نہ صرف شام کو بلکہ پورے مشرق وسطی اور دنیا
کو سنگین سیکورٹی خطروں سے دوچار کردیا ہے۔
منظم ترین اور سب سے بڑا دہشتگرد گروہ داعش
جس میں ایک سو ملکوں کے شہری شامل ہیں ایک قوم کے قتل عام میں مصروف ہے۔ ایسے حالات
میں ترکی کے صدر یہ کہ رہے ہیں کہ شام کے صدر بشار اسد ظالم ہیں۔مشرق وسطی کے ملکوں
اور اس علاقے میں بیرونی ملکوں کی اولین ترجیح داعش اور اس کےہم خیال دہشتگرد گروہوں
کا مقابلہ کرنا ہے۔ ترکی علاقے کا ایک بڑا
اور بااثر ملک ہے اوراگر وہ اپنی ماضی کی کارکردگي کی اصلاح نہیں کرے گا تو انتہا پسندی
اور تشدد کے بھنور میں پھنس جائے گا۔