Nov ۰۱, ۲۰۱۵ ۱۷:۱۸ Asia/Tehran
  • اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کے تعین میں شامی عوام کے کردار پر بان کی مون کی تاکید
    اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کے تعین میں شامی عوام کے کردار پر بان کی مون کی تاکید

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسپین کے اخبار ال موندو سے انٹرویو میں اس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہ بحران شام کے بارے میں ہونے والے مذاکرات میں ناقابل قبول طور پر شام کے صدر بشار اسد کے مستقبل کو زیر بحث لایا گیا، اس امر پر زور دیا کہ بشار اسد کے مستقبل کا فیصلہ شامی عوام کو کرنا چاہیے۔

بان کی مون نے کہا کہ شام کی حکومت، آئندہ حکومت کے کم از کم کچھ حصے میں بشار اسد کے کردار پر زور دیتی ہے لیکن مغربی اور بعض عرب ممالک کا خیال ہے کہ اقتدار میں بشار اسد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ویانا اجلاس میں بشار اسد کے مستقبل کے بارے میں بات چیت کی گئی لیکن یہ اجلاس زیادہ تر امن کے حصول کے لیے مذاکرات کے عمل کی بحالی پر مرکوز تھا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا یہ موقف، ویانا اجلاس کے بعد کہ جس میں دنیا کے سترہ ممالک، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے شرکت کی اور اس میں پورے شام میں جنگ کو روکنے کی بات کی گئی، سامنے آیا ہے اور اس پر وسیع ردعمل ظاہر ہوا ہے۔

ویانا اجلاس کا اختتامی بیان اگرچہ بحران شام کے حل کے لیے تعمیری بین الاقوامی اقدام کی امید دلاتا ہے لیکن بعض ممالک بدستور یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جمہوری اصول و روایات سے ہٹ کر شامی عوام کی جگہ فیصلہ کریں اور یہی پالیسی ویانا اجلاس پر چھائی رہی۔

بشار اسد کے مستقبل کے بارے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا موقف اور اس کے ایک داخلی مسئلہ ہونے پر تاکید ایک ایسی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی کنونشن جس پر زور دیتے ہیں۔ بین الاقوامی کنونشنوں کے مطابق ملکوں کے حکام کا تعین ان ملکوں کے عوام کا حق ہے اور غیرملکی حکومتوں کو اس مسئلے میں مداخلت کرنے سے روکا گیا ہے۔

لیکن بحران شام پر ایک نطر ڈالنے سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ مغربی ممالک اور بعض عرب حکومتوں نے شام کے امور میں مداخلت کر کے اور بعض عوامی اعتراضات سے غلط فائدہ اٹھا کر کہ جن میں شام میں بعض اصلاحات کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، دہشت گردوں کی حمایت کی اور ہزاروں دہشت گردوں کو شام بھیج کر اس ملک میں اعتراضات کو دہشت گردی کی شکل دے دی۔

اس سلسلے میں مغربی حکومتوں نے شامی حکومت کے خاتمے اور بشار اسد کی برطرفی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا اور اسے بحران شام کے بارے میں کسی بھی قسم کے مذاکرات کی پیشگی شرط قرار دیا۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب شامی عوام کی اکثریت نے کئی بار اپنے ملک کے صدر کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں تین جون دو ہزار چودہ کو ہونے والے صدارتی انتحابات میں بشار اسد تیسری بار سات سال کے لیے شام کے صدر منتخب ہوئے۔

ان ہی حقائق کی بنیاد پر شام کے امور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی میسٹورا نے بحران شام کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ بات چیت جاری رہے گی کیونکہ وہ راہ حل کا ایک حصہ ہیں۔

جبکہ بشار اسد نے بھی اقوام متحدہ کے حکام اور مختلف بین الاقوامی وفود سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ شام، بحران کے حل کے لیے ہر اس تعمیری منصوبے کا خیرمقدم کرتا ہے کہ جو شامی عوام کے مفاد میں ہو۔

شام کے صدر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنا شام میں سیاسی راہ حل کی تمہید ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ جس کی جانب ویانا اجلاس میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ویانا اجلاس کے نو شقوں پر مشتمل اعلامیے میں بشار اسد کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق شام کے عوام کو حاصل ہونے پر مبنی ایران کے موقف سمیت شام کی ارضی سالمیت ، قومی وحدت اور اقتدار اعلی کا تحفظ ، دہشت گردی کے خلاف جدوجہد اور سرانجام اس ملک کے بحران کے حل کے سیاسی عمل کی تکمیل پر تاکید کی گئی ہے اور اس اختتامی بیان میں ایران کا کردار نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اس طرح ویانا اجلاس میں بشار اسد کی برطرفی کا نظام الاوقات طے کرنے کا منصوبہ ناکامی سے دوچار ہو گیا۔

بلاشبہ اپنے ملک اور بشار اسد کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے میں شامی عوام کے کردار پر توجہ اور کسی بھی سیاسی تجویز اور منصوبے پر دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ اور مؤثر جنگ کو ترجیح، بحران شام کی حقیقی راہ حل ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ جس پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل زور دیتے ہیں۔

ٹیگس