Nov ۱۷, ۲۰۱۵ ۱۲:۳۶ Asia/Tehran
  • دہشت گردی کے خلاف جنگ، جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامیے کا مرکزی نکتہ
    دہشت گردی کے خلاف جنگ، جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامیے کا مرکزی نکتہ

جی ٹوئنٹی کے ممالک کے سربراہوں نے پیر کی رات ترکی کے شہر انطالیہ میں اپنے اجلاس کے اختتام پر ایک اعلامیہ جاری کر کے اعلان کیا ہے کہ دہشت گردی کا مذہب، ملت اور قوم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان عالمی رہنماؤں نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور ان کے مالی ذرائع منقطع کرنے کے لیے جی ٹوئنٹی کے رکن ملکوں کے تعاون پر زور دیتے ہوئے آپریشنل معلومات کے تبادلے، سرحدوں کے کنٹرول کو سخت کرنے اور فضائی سفر اور نقل و حمل کو محفوظ بنانے کا مطالبہ کیا۔

اس اعلامیہ میں پیرس اور انقرہ کے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان ملکوں کے عزم پر زور دیا گیا۔

اس اعلامیے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے مالی ذرائع کو ختم کیا جائے اور اس سلسلے میں ایف اے ٹی ایف کے مالی اصول و قوانین سے استفادہ کیا جائے۔

اس اعلامیہ میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ملکوں کے اقدامات انتہا پسند گروہوں اور تشدد کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قرارداد اکیس سو اٹھتر اور دہشت گردوں کے انٹرنیٹ ذرائع اور ان کے پروپیگنڈے اور اس سے متعلق امکانات کو محدود کرنے کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔

جی ٹوئنٹی اجلاس میں اسی طرح اس مسئلے پر زور دیا گیا ہے کہ پوری دنیا میں دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ملکوں کا تعاون ایک علاقے پر مرکوز نہیں ہونا چاہیے۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب وائٹ ہاؤس نے بھی ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور فرانس کے رہنماؤں نے جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس کے موقع پر دہشت گرد گروہ داعش پر قابو پانے کے لیے کارروائی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس اجلاس میں شریک تمام رہنماؤں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے وعدے پر زور دیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ فرانس میں داعش کے دہشت گردانہ حملے مغربی ممالک کے لیے ایک بہت بڑے جھٹکے کے مترادف تھے۔

یہ ممالک کہ جن میں امریکہ برطانیہ اور فرانس سرفہرست ہیں، خود شام میں دہشت گرد گروہوں کے سب سے بڑے حامی سمجھے جاتے ہیں اور ان کی جانب سے نام نہاد اچھے دہشت گردوں کی حمایت کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس طرح شام کی قانونی حکومت کو گرا سکیں۔

دوسری جانب ان گروہوں خاص طور پر داعش کے پھیلاؤ اور تقویت اور مغربی ممالک کے خلاف اس گروہ کی وسیع پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں سے ا ب بازی مغربی ممالک کے نقصان میں پلٹ گئی ہے اور وہی دشت گرد جو ایک زمانے میں راہ آزادی کے مجاہدین کے طور پر جانے جاتے تھے، اس وقت مغرب والوں کے اعلامیوں میں انھیں واضح طور پر داعش کے دہشت گردوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

جی ٹوئنٹی اور وائٹ ہاؤس کے اعلامیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں داعشی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا ایک راستہ داعش کے مالی ذرائع کو ختم کر دینا ہے۔

اس سلسلے میں مالی اقدام کے خصوصی گروپ ایف اے ٹی ایف کے مالی اصول و قوانین سے استفادہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

یہ ایک بین الحکومتی ادارہ ہے کہ جس کی ذمہ داری دہشت گرد گروہوں کے مالی ذرائع اور کالے دھن کو سفید کرنے کا مقابلہ کرنے کی پالیسیاں بنانا اور انھیں آگے بڑھانا ہے۔

یہاں اس سلسلے میں جو سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا مغرب والوں خاص طور پر امریکہ کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ داعش کی مالی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ داعش کی جانب سے شام اور عراق کے تیل کی ترکی کے راستے فروخت ہے اور یقینی طور پر ترکی کی حکومت کو اس بات کا پتہ ہے اور اس نے اس کو گرین سگنل دے رکھا ہے۔

اس طرح یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مغرب والے جس طرح داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے عزم پر زور دیتے ہیں اگر یہ عزم حقیقی ہو تو پھر داعش کے خلاف یہ بھرپور مقابلہ مختلف فوجی اور اقتصادی میدانوں میں کیا جانا چاہیے خاص طور پر مختلف افراد کو ترکی کے راستے داعش میں شامل ہونے سے روکا جانا چاہیے۔ لیکن شواہد اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ داعش کو بدستور بھرپور حمایت حاصل ہے۔

اس سلسلے میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس میں واضح طور پر کہا ہے کہ جی ٹوئنٹی کے بعض ممالک سمیت دنیا کے چالیس ممالک داعش سمیت شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی مالی مدد کر رہے ہیں۔ ان کے بقول روسی طیاروں کے ذریعے لی گئی فضائی تصاویر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد تیل اور تیل کی بعض مصنوعات کی غیرقانونی تجارت میں ملوث ہیں۔

ٹیگس