Jan ۰۱, ۲۰۱۶ ۲۰:۴۴ Asia/Tehran
  • دو ہزار پندرہ ، بحرین میں سیاسی کارکنوں پر آل خلیفہ کے تشدد میں اضافہ

بحرین میں آل خلیفہ کی ڈکٹیٹر حکومت کے ہاتھوں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں اور اس ملک کے زیادہ سے زیادہ عوام کو جیلوں میں ڈالنے کے اقدامات میں شدت نیز بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے کی بناء پر بحرینی عوام کی تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

ایسے حالات میں آل خلیفہ کی ڈکٹیٹر حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کا دائرہ مختلف قانونی اداروں تک پھیل گیا ہے اور اس سلسلے میں اعلان کیا گیا ہے کہ آل خلیفہ حکومت کی عدالتوں نے سن دو ہزار پندرہ میں دو افراد کو پھانسی اور مختلف افراد کو سات سو نوے سال قید کی سزا کا حکم سنانے کے علاوہ چھتیس بحرینی شہریوں کی شہریت منسوخ کر دی۔

بحرین کے انسانی حقوق کے مراکز نے ایک بیان جاری کر کے کہا ہے کہ بحرین کے عدالتی نظام نے سال دو ہزار پندرہ عیسوی کو ایسے حالات میں رخصت کیا ہے کہ جب پھانسی کے دو حکم جاری کر کے چونتیس بحرینی شہریوں کو سات سو نوے برس کی قید کی سزائیں سنائی ہیں کہ جس میں سے چار افراد کو عمر قید کی سزا سنائی ہے اور اسی طرح چھتیس بحرینی شہریوں کی شہریت بھی منسوخ کر دی ہے اور اس طرح اب تک شہریت منسوخ ہونے والے بحرینی شہریوں کی تعداد دوسو چون تک پہنچ گئی ہے۔

بحرین کے انسانی حقوق کے مراکز نے خبردار کیا ہے کہ حکومت آل خلیفہ کے حکام انسداد دہشتگردی کے قانون کو سخت سزائیں دینے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

بحرین سے ملنے والی مختلف خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ آل خلیفہ کی شاہی اور ڈکٹیٹر حکومت کے سیکورٹی اہلکار بحرین کے انقلابیوں کے خلاف معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور شاہی حکومت کے مخالفوں کو بے بنیاد بہانوں سے بڑے پیمانے پر گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رہے ہیں۔ اس وقت بحرین میں تقریبا دس ہزار سیاسی افراد قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور روزانہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کی صورتحال نہایت ہی ابتر ہے اور انہیں روزانہ مختلف طرح کی ایذائیں دی جا رہی ہیں۔

بحرینی مظاہرین کے خلاف آل خلیفہ کا ظالمانہ تشدد جاری رہنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کی پارلیمنٹ نے سن دو ہزار پندرہ میں دہشتگردی سے مقابلے کا بہانہ بنا کر مظاہرین کو مزید کچلنے کے لئے نیا قانون منظور کیا ہے ۔ بحرین کی پارلمینٹ نے کہ جس کے اکثر ارکان کو بادشاہ نامزد کرتا ہے، سزاؤں میں اضافے کے بل کہ جسے بقول ان کے دہشت گردی کے خلاف مہم کا عنوان دیا گیا ہے، کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

ایسے ماحول میں آل خلیفہ حکومت نے، مختلف عنوانات کے تحت ، اس ملک کے سیاسی کارکنوں کو کچلنے کی اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔اس تناظر میں آل خلیفہ حکومت نے انسداد دہشتگردی سے موسوم قانون کو ایک حربہ بناکر دباؤ اورگھٹن کے ماحول میں اضافہ کرنے اور بحرین کو ایک پولیس اسٹیٹ بنانے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔

انسداد دہشتگردی کے قانون کے مطابق، آل خلیفہ حکومت کو ہر قسم کے اجتماعات کو کچلنے، مخالفین کو دہشتگردی کی حمایت کے الزام میں گرفتار کرنے اور حکومت مخالف گروہ پر دہشتگردی کی حمایت کے بہانے، پابندی لگانے کا اختیار ہو گا۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بحرین میں دہشت گردی کے خلاف نیا قانون، انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس قانون میں دہشتگردی کی تعریف اتنی لامحدود اور مبہم ہے کہ ہر قسم کی سول نافرمانی کو بھی دہشتگردی کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ آل خلیفہ حکومت نے انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزی اور عوام کے مسلمہ قانونی مطالبات نظرانداز کرنے کے ساتھ، بحرین کو انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزی کے ایک مرکز میں تبدیل کر دیا ہے۔

آل خلیفہ کی سرگرمیوں سےاس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ بحرین کی ڈکٹیٹر حکومت نے اپنے عوام کو کچلنے کی مختلف روشوں اور طریقوں میں ممتاز مقام حاصل کر لیا ہے اور یہ حکومت، عالمی سطح پر خوف و دہشت پھیلانے والی حکومت کے عنوان سے پہچانی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں انسانی حقوق کے مراکز نے بارہا کہا ہے کہ بحرین کی شاہی حکومت کی انسانی حقوق کے سلسلے میں کارکردگی، دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے سیاہ ترین کارکردگیوں میں شمار ہوتی ہے۔