ایران اور فرانس کے درمیان تعاون کا نیا باب
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی، منگل کے روز اپنا دورۂ اٹلی مکمل، اور دنیائے کیتھولیک کے رہنما پوپ فرانسیس سے ملاقات کرنے کے بعد یورپ کے اپنے دورے کے دوسرے مرحلے میں پیرس کا دورہ کریں گے جہاں وہ فرانسیسی حکام سے ملاقات کریں گے۔
تہران کے خلاف پابندیاں ختم کئے جانے کے بعد اگرچہ اس وقت ایران اور یورپ کے درمیان اقتصادی تعاون کا ماحول کافی سازگار ہو رہا ہے تاہم ایران کے صدر کے دورۂ فرانس کو اقتصادی دورے سے کہیں زیادہ بڑھکر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ موجودہ صورت حال میں اور ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد، جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان کے پیش نظر ایران اور یورپ کے درمیان تعاون کے وسیع مواقع پائے جاتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے چین کے صدر نے بھی ایران کا دورہ کیا اور ان کے اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی و اقتصادی شعبوں میں اہم مذاکرات انجام پائے۔
اس وقت یورپ کے حوالے سے بھی تعاون کا ماحول سازگار ہوا ہے جس سے ایشیائی اور یورپی ملکوں کے ساتھ ایران کے تعلقات میں توازن کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ اعلی حکام کے دوروں سے حقائق کو اچھی طرح سے سمجھنے، مسائل و بحران کا گہرائی سے جائزہ لینے اور کثیر جہتی تعاون کے مواقع پیدا ہونے میں کافی مدد ملے گی۔ کچھ عرصے قبل فرانس کی سینٹ کے چیئرمین نے اپنے دورۂ تہران میں ایران کو علاقے کا ایک مستحکم ملک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امن و استحکام کے تحفظ میں ایران کامیاب تجربے کا حامل رہا ہے۔ انھوں نے ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے ملاقات میں اس بات پر تاکید کی تھی کہ فرانس، علاقے اور دہشت گردی کے خلاف مہم کے بارے میں ایران کے نظریات سے استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ اس ملاقات میں ایران کے صدر نے بھی مشترکہ تعاون کے فروغ کے لئے تہران اور پیرس کی توانائیوں سے استفادہ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایران اور فرانس کو چاہئے کہ ایٹمی معاہدے اور تہران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کے بعد، پیدا ہونے والے حالات میں مختلف شعبوں میں تعلقات و تعاون کو ماضی سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کریں۔
ایٹمی معاہدے کے بعد فرانس کے اعلی سطحی سیاسی و اقتصادی وفود کے دورۂ تہران سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوئی ہے کہ سمجھوتے کا حصول، دونوں ملکوں کے تعلقات اور تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کا ایک آغاز ہے اور اب اس عمل میں مزید تیزی آئی ہے۔ ایران بھی فرانس کو یورپ کا ایک اہم ملک سمجھتا ہے اور ایران کے اسلامی انقلاب کے دوران فرانس کے حوالے سے اس کی ذہنیت مثبت رہی ہے۔ نوفل لوشاتو میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی(رہ) کے قیام سے ایرانی عوام کے اذہان میں فرانس کا نام ہمیشہ باقی رہا ہے اور ایرانی قوم، فرانس کو مہذّب قوم کے حامل ملک کی حیثیت سے پہچانتی ہے۔ اس وقت ایران اور یورپی ملکوں کے درمیان تعلقات و تعاون کے فروغ کی ضرورت کو، پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہ تعاون، تمام شعبوں منجملہ تشدد و دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مقابلے کے شعبے میں فروغ پا سکتا ہے اور تہران اور پیرس کے درمیان مستحکم بنیادوں کا باعث بن سکتا ہے۔
مشترکہ جامع ایکشن پلان سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اہم عالمی مسائل کو منطق اور مذاکرات سے بخوبی حل کیا جاسکتا ہے اور مشترکہ جامع ایکشن پلان، مذاکرات کے ذریعے تمام بین الاقوامی مسائل کو حل کئے جانے کا ایک مثالی نمونہ ہے۔ فرانس میں گذشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کے رونما ہونے والے واقعات اور اسی طرح تمام دہشت گردانہ واقعات سے، یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ دہشت گردی، تمام ملکوں اور قوموں کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ دہشت گردی، بحران شام اور پناہ گزینوں کے مسئلے جیسے، تمام مسائل کے حل کے لئے مشترکہ تعاون و ادراک کی اشّد ضرورت ہے اور ایران اور فرانس، اس سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھی شراکت و بھرپور تعاون کر سکتے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں بھی مختلف شعبوں میں تعاون جاری رہا ہے اور اس وقت اس بات کا موقع میسر ہوا ہے کہ دونوں ممالک نئی صورت حال سے بہترین استفادہ کریں۔