Mar ۰۲, ۲۰۱۶ ۲۰:۰۳ Asia/Tehran
  • غاصب صیہونی حکومت میں سیاسی اختلافات

غاصب صیہونی حکومت میں سیاسی اختلافات میں اضافے نیز اقتصادی اور سماجی بحرانوں میں شدت کی وجہ سے اس حکومت کے زوال کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے

غاصب صیہونی حکومت کو ان دنوں سیاسی اختلافات اور داخلی کشمکش کی نئی لہر کا سامنا ہے ۔سیاسی کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے صیہونی وزیراعظم کو  اس وقت کافی دشواریاں درپیش ہیں ۔صیہونی ویب سائیٹ عاروتص شوا نے اپنی گزشتہ روز کی اشاعت میں لکھا ہے کہ فوجی اور خارجہ امور کی کمیٹی سے لیکوڈ پارٹی کے رکن اور صیہونی پارلیمینٹ کے ممبر اورن ہازان کی معطلی کے بعد اس ممبر پارلیمنٹ نے صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات میں  صیہونی وزیر اعظم کو خبر دار کیا ہے کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو وہ الائنس سے نکل جائیں گے۔نیتن یاہو کی کابینہ  کو   120  ارکان کی پارلیمنٹ میں صرف 61 اراکین کی حمایت حاصل ہے اور اگر ان میں سے ایک اتحادی کا بھی  ووٹ کم ہوگیا تو آئینی حوالے سے کابینہ ٹوٹ جائیگی کیونکہ نیتن یاہو کی اکثریت ختم ہوچکی ہوگی۔
نیتن یاہو کی انتہا پسندانہ اور کشیدگی پر مبنی پالیسیوں نے گذشتہ کابینہ کے وزرا من جملہ اویگدور لیبر مین اور تریپی  لیونی کو بھی احتجاج پر مجبور کردیا ہے ۔صیہونی اخبار یدیعوت احرونوت کے مطابق نیتن یاہو نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار کیا ہے اور وہ صیہونیوں کو فلسطینیوں کے خلاف بھڑکا کر جبر و تشدد کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔۔
کہا جارہا ہے کہ اس وقت صیہونیوں کی ایک بڑي تعداد من جملہ بائیں بازو کی جماعت جو موجودہ حالات میں فلسطینیوں کے خلاف نئی جنگ اور مہم جوئی کے خلاف ہے نیتن یاہو کی مخالف ہے اسی طرح دائیں  بازو کی جماعت جسے جنگ کی منیجمنٹ کے حوالے سے حکومت پر اعتراض تھا وہ بھی نیتن یاہو کی پالیسیوں کے خلاف ہے ۔
انتفاضہ تحریک کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کی وسیع ناکامیوں کے بعد صیہونی حکومت کے سیاسی بحران میں شدت آئی ہے اور باہمی اختلافات کی خلیج میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔۔غاصب صیہونی حکومت کے سیاسی ماحول پر ہمیشہ داخلی اختلافات کا سایہ رہا ہے حسکے نتیجے میں حماعتوں کی باہمی اور داخلی اختلافات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔اس سیاسی صورت حال نے سیاسی میدان میں صیہونی حکومت کی کمزوریاں اور بھی نمایاں کردی ہیں۔
غاصب صیہونی حکومت کی حالیہ تبدیلیوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سیاسی کشمکش اور اقتدار کی جنگ کا سلسلہ صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کی سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات نے بھی اس غاصب حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ان داخلی اختلافات کی وجہ سے صیہونی حکومت کی مختلف جماعتیں خاص کر اصلی جماعتیں لیکوڈ،لیبر اور شاس وغیرہ دوسروں سے بڑھ کر کمزوری اور انحطاط کا شکار ہیں۔یہ صورت حال نیتن یاہو کی کابینہ جسے غاصب اسرائیل کی سب سے کمزور اور جلد ٹوٹنے والی کابینہ سمجھا جاتا ہے کے لئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا جارہا ہے ۔
اس کابینہ کو 120 نشستوں میں صرف اکسٹھ نمائندوں کی حمایت حاصل ہے ۔اس کابینہ کی کمزوری کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ اس قدر کمزور ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ نیتن  یاہو نے اپنی کابینہ کی ڈوبتی ناؤ کو بچانے کے لئے   دیگر سیاسی پارٹیوں سے جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے اور اپنی کمزور حکومت میں مذید پارٹیوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی ہے جس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔دوسری طرف مخلوط کابینہ میں شامل مختلف حماعتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے نین یاہو کو بلیک میل بھی کرتی ہیں جسکی وجہ سے یہ کابینہ اور بھی کمزور ہوگئی ہے ۔موجودہ قرائن اس بات کی نشاندھی کرتے ہیں کہ غاصب صیہونی حکومت کے سیاسی حالات مقررہ مدت سے پہلے انتخابات کے انعقاد کی طرف جارہے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت میں سیاسی اختلافات میں اضافے نیز اقتصادی اور سماجی بحرانوں میں شدت کی وجہ سے اس حکومت کے زوال کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے اور اس کا حتمی آغاز اندورنی اختلافات سے ہوگا۔