Mar ۰۴, ۲۰۱۶ ۱۸:۱۱ Asia/Tehran
  • حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینے کا مضحکہ خیز دعوی

حزب اللہ کو دہشت گرد تنطیم قرار دیئے جانے پر مبنی خلیج فارس تعاون کونسل کے اقدام پر اسلامی جمہوریہ ایران نے سخت رد عمل دکھایا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابری انصاری نے خلیج فارس تعاون کونسل کے بیان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے پر مبنی بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے کہ حزب اللہ غاصبوں کے مقابلے اور فلسطینی قوم کی حمایت کرنے کی بنا پراس پورے خطے میں صیہونی حکومت کے سامنے استقامت کی علامت بن گئی ہے۔ جابری انصاری نے کہا کہ "حزب اللہ" شام اور لبنان میں داعش اور جبھتہ النصرہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکنے میں موثر کردار ادا کر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ ان حالات میں بعض عرب ملکوں کی جانب سے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا، لبنان کی سلامتی اور قومی وحدت کو خطرے میں ڈالنے کے ساتھ ہی اس پورے خطے کی امن و سلامتی کے لئے خطرہ شمار ہوتا ہے۔ حزب اللہ پر دباؤ بڑھانے کے لئے ریاض کی کوششوں کو سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجـبیر کی جانب سے بے نقاب کئے جانے کے بعد خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں، سعودی عرب، کویت، قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین اور عمان نے ریاض کا ساتھ دیتے ہوئے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرا دیدینے کا انتہائی بھونڈا اور مضحکہ خیز دعوی کیا اور کہا کہ حزب اللہ کے خلاف جلدہی اقدام کیا جائے گا۔ صیہونی حکومت کے مقابلے میں ایک بڑے محاذ اور دہشت گردی کے مقابلے میں علاقے کی سب بڑی اور مضبوط جماعت "حزب اللہ" کو خلیج فارس تعاون کونسل کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے کے اقدام پر اس پورے علاقے کی مختلف جماعتوں اور سیاسی شخصیات نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ خطے کی بحرانی اور حساس صورتحال میں اس طرح کا بیان دراصل سعودی عرب کی سرکردگی میں خلیج فارس تعاون کونسل کا لبنان کی قومی وحدت پر سنجیدہ حملہ شمار ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے دو ہفتے قبل لبنان کی فوج کے لئے تین ارب ڈالر کی اپنی مجوزہ امداد روکدی اور اس کے ساتھ ہی عرب سرمایہ کاروں سے درخواست کی وہ لبنان سے اپنا سرمایہ نکال لیں، سعودی عرب کے اس اقدام کا مقصد دراصل لبنان کی حکومت کو اپنے دباؤ میں لینا ہے۔ چنانچہ لبنان کے سیاسی اور مذھبی حلقوں نے ریاض کی جانب سے حکومت اور حزب اللہ پر ڈالے جانے والے دباؤ کو ایک دوسرے سے مرتبط قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ان اقدامات کی جڑوں کو شام میں ریاض حکومت کے حامی دہشت گرد گروہوں کی شکست میں تلاش کیا جانا چاہیے۔ اسی نقطہ نظر کے تحت سعودی عرب، یمن، عراق خصوصا شام میں اپنے پیش نظر اہداف میں ناکامی کے بعد حکومت لبنان اور حزب اللہ پر دباؤ ڈال کر شام کی دلدل سے اپنے حامی دہشت گردوں کے انخلا کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران، "شام اور حزب اللہ" کی مرکزیت کے ساتھ استقامتی محاذ کی حمایت اور تقویت پر زور دیتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے خلیج فارس تعاون کونسل کے بیان کو سختی کے ساتھ مسترد کرنے کا اعلان کیا اور دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ چونکہ حزب اللہ صیہونی حکومت کے مقابلے میں فرنٹ لائن پر موجود ہے اور علاقے میں جاری دہشت گردی کے خلاف جدو جہد میں بھی اس کا شمار ہراول دستے میں ہوتا ہے لہذا ایران تمام تر سازشوں اور دباؤ کے باوجود اس کی بدستور حمایت کرتا رہے گا۔