نواز شریف اور اوباما کے درمیان ٹیلی فونی گفتگو
امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف مہم کے بارے میں تبادلہ خیال کیاہے۔
پاکستانی ذرائع کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستان کے وزیراعظم سے ہونے والی اس ٹیلی فونی گفتگو میں امید ظاہر کی کہ نواز شریف کی حکومت پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ باراک اوباما نے کہا کہ نواز شریف کے دور اقتدار میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کافی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
امریکی صدر نے پاکستان کے وزیر اعظم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کے لئے اپنے ملک کے تعاون کا یقین بھی دلایا۔ اس ٹیلیفونی گفتگو میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کہا کہ پاکستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لئے ان کے ملک کے عوام کا عزم روز بروز مزید مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف مہم میں پاکستان کی حمایت کے لئے امریکی پالیسی کے بارے میں نواز شریف کےساتھ باراک اوباما کی ٹیلی فونی گفتگو ، افغانستان سمیت واشنگٹن کے علاقائی منصوبوں میں اسلام آباد کے تعاون پر مبنی وائٹ ہاؤس کی ضرورت کا نتیجہ ہے۔
بعض سنجیدہ مخالفتوں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف مہم میں پاکستان کو ہتھیار فروخت کرنے کے لئے امریکی کانگریس کے ارکان کو مطمئن کرنے کی غرض سے وائٹ ہاؤس کے حکام کی کامیابی، واشنگٹن کے لئے دونوں ملکوں کے اسٹرٹیجک تعلقات کے جاری رہنے کی اہمیت کی علامت ہے۔
اگرچہ پاکستان کو اسلحہ فروخت کرنے کے امریکہ کے پروگرام پر، واشنگٹن کے اتحادی ہندوستان نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے، لیکن وائٹ ہاؤس کی حتمی پالیسی، علاقے میں اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے لئے اسلام آباد کے تعاون کو حاصل کرنا ہے۔
گذشتہ مہینوں میں افغانستان کے چار جانبہ امن اجلاس میں چین، افغانستان اور امریکہ کے ہمراہ پاکستان کی موجودگی، کہ جو واشگٹن کی ایماء پر عمل میں آئی، افغانستان میں طویل جنگ یا امن کے مسئلہ میں واشنگٹن کی پالیسی کے ساتھ اسلام آباد کو ساتھ لیکر چلنے کے لئے وائٹ ہاؤس کی کوششوں کی علامت ہے۔
ماضی کے برسوں میں پاکستان نے، افغانستان کے امن کے عمل سے اسلام آباد کو دور رکھنے کے لئے، امریکی پالیسی پر شدید تنقید کی تھی اور پاکستان کے حکام نے کہا تھا کہ اگر وائٹ ہاؤس، افغانستان میں جنگ اور دہشت گردی کے خلاف مہم میں اسلام آباد کے موثر کردار کا خواہاں ہے تو امن عمل میں پاکستان کے مقام کو واضح ہونا چاہیے۔
سیاسی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کا پاکستان کو ہتھیار فروخت کرنے پر اتفاق اور چار جانبہ امن اجلاس کے رکن ملکوں میں پاکستان کی شمولیت اور امن مذاکرات کے انعقاد کے لئے کابل حکومت کے مخالف گروہوں کو دعوت دینے کے لئے اسلام آباد کو ذمہ دای دینے کے ساتھ کوشش کی ہے کہ دو جانبہ تعلقات کے فروغ کے لئے پاکستان کی درخواست کا مثبت جواب دے۔
یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکہ اس کوشش میں ہے کہ پاکستان کے ساتھ اپنی ظاہری پالیسی میں مثبت رحجان کو پیش کرنے کے ساتھ، اسلام آباد کو علاقے میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد مہم پر مبنی واشنگٹن کی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ کرلے۔
اگر چہ پاکستان کے ساتھ تعاون میں کمی اور بعض امداد کی منسوخی کے حوالے سے امریکی پالیسی تعلقات کے فروغ اور امداد میں اضافے کی صورت میں تبدیل ہورہی ہے اور اس کی علامات بھی نظر آرہی ہیں، لیکن اسلام آباد اسٹرٹیجک تعلقات کے دائرے میں وائٹ ہاؤس سے جوہری ٹیکنالوجی میں توسیع اور فوجی امداد کا خواہاں ہے، البتہ پاکستان کی اس درخواست کا عملی ہونا بعید نظر آتا ہے۔