انقلاب بحرین میں سرگرم سیاسی جماعتوں کے خلاف آل خلیفہ حکومت کی جنگ
بحرین کی آل خلیفہ حکومت نے اپنے ملک میں عوامی انقلاب کو ناکام بنانے کے مقصد سے انقلابی تحریک میں سرگرم سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے خلاف جنگ شروع کردی ہے۔
بحرین میں آل خلیفہ حکومت کی عدلیہ کے حکم سے اس ملک کی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں منجلہ التوعیۃ الاسلامیہ اورالرسالہ کی تحلیل کے علاوہ جمعیت اسلامی الوفاق کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
بحرین کی آل خلیفہ حکومت کی آلہ کار عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ، اس ملک کی وزارت انصاف کی درخواست پر کیا گیا ہے جس نے ان سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی تحلیل کا مطالبہ کیا تھا۔
بحرین کی وزارت انصاف نے اپنے دعوے میں جمعیت الوفاق پر، جو بحرین کے عوامی انقلاب کا اہم ترین سیاسی گروہ ہے، قوانین کی خلاف ورزی اور دہشت گردی و انتہا پسندی میں تعاون کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ آل خلیفہ حکومت نے بحرین کے سیاسی گروہوں کی سرگرمیوں کا دائرہ محدود کرتے ہوئے بحرین کے عوامی انقلاب کی اخلاقی طور پر رہنمائی کرنے کی حیثیت سے اس ملک کے علمائے دین پر بھی سخت دباؤ بڑھا دیا ہے۔
اسی دائرہ کار میں بحرینی حکام نے علامہ شیخ محمد صنقورہ کو نماز جمعہ کی امامت کرنے سے روک دیا ہے جبکہ بحرین کی علماء کونسل کے چیئرمین اور اس ملک کے معروف عالم دین شیخ عیسی قاسم کے دفتر کے سربراہ سید مجید المشعل کو تفتیش کے لئے عدالت میں طلب کر لیا۔
بحرین میں آل خلیفہ حکومت کی جانب سے یہ جارحانہ اقدامات، ایسی حالت میں عمل میں لائے جا رہے ہیں کہ اس ملک کا عوامی انقلاب مکمل جوش و جذبے کے ساتھ بدستور اپنی کامیابی کی منازل طے کر رہا ہے۔ بحرین کے عوامی انقلاب کے اسی جذبے کی بناء پر آل خلیفہ حکومت، عوامی انقلاب میں اثرانداز واقع ہونے والے علمائے کرام اور سیاسی گروہوں کے خلاف جنگ پر اتر آئی ہے۔
بحرین کی جمعیت الوفاق نے بدھ کے روز ایک بیان جاری کر کے خبردار کیا ہے کہ آل خلیفہ حکومت کی بیرون ملک سے وابستگی اور بحرینی قوم کے خلاف اس کی جنگ وجارحیت سے، ملک میں ممکنہ طور پر خطرناک فرقہ وارانہ جھڑپیں شروع ہو سکتی ہیں۔
سیاسی گروہوں التوعیۃ الاسلامیہ اور الرسالہ کی تحلیل اور جمعیت الوفاق کی سرگرمیوں پر پابندی سے متعلق آل خلیفہ حکومت کے اقدام سے بحرینی قوم کے مختلف طبقوں کے ساتھ آل خلیفہ حکومت کی جانب سے اختیار کئے جانے والے رویے میں فرقہ واریت کی نشاندہی ہوتی ہے۔
بحرین میں سیاسی گروہ منجملہ شیخ علی سلمان کی زیر قیادت، جو اس وقت بحرین کی جیل میں بند ہیں، جمعیت الوفاق جیسے گروہ اور اسی طرح بحرینی علمائے کرام، اس وقت اس ملک میں مظلوموں کی آواز اور ان کے ترجمان کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان علماء کے خلاف آل خلیفہ حکومت کی جنگ، اپنے ملک کے عوامی انقلاب کو کنٹرول کرنے میں اس حکومت کی ناتوانی کو ثابت کرتی ہے۔
بحرین میں آل خلیفہ حکومت کے مخالف گروہوں کے اقدام کو اس ملک کے عوام کی بھرپور اور بنیادی حمایت حاصل ہے اور ان گروہوں کو سیاسی میدان سے ہٹانے سے بحرین کی آل خلیفہ حکومت ہرگز اپنا کوئی مقصد حاصل نہیں کر سکے گی۔
بحرین کی نوّے فیصد سے زائد شیعہ مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل آبادی کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بحرین کے علمائے کرام اور سیاسی گروہوں کو عوام میں مکمل اثر و رسوخ حاصل ہے جو بحرینی عوام میں خاص مقام بھی رکھتے ہیں۔ بنابریں ان گروہوں کے دفاتر اورعمارتوں کو سیل کر کے انھیں اس ملک کے سیاسی میدان سے ہرگز نہیں ہٹایا جا سکتا۔
علاوہ ازیں بحرین کے قانون اور اسی طرح بین الاقوامی قوانین کے تحت سیاسی گروہوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو میدان میں بھرپور طریقے سے موجود رہنے کے ساتھ ساتھ آزادی بیان کا بھی مکمل حق حاصل ہے۔ اس رو سے ان کے خلاف بحرین کی آل خلیفہ حکومت کے جارحانہ اقدامات، قابل مذمت ہیں کہ جن کی بنیاد پر یہ حکومت ہرگز کامیابی حاصل نہیں کر سگے گی۔
اگرچہ بحرینی عوام کی پرامن تحریک کے خلاف آل خلیفہ حکومت کے تفرقہ انگیز اقدامات، بعض عرب اور مغربی ملکوں کی ہری جھنڈی دکھانے سے عمل میں آرہے ہیں تاہم بحرینی عوام کی تحریک کو بین الاقوامی قوانین اور رائے عامہ کی حمایت حاصل ہے اور اسے ختم کرنے کے لئے آل خلیفہ حکومت کی کوشش، اس حکومت کی مکمل رجعت پسندی کا مظہر ہے۔