سعودی عرب کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دعوی، قول سے فعل تک
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اپنے ملک پر لگائے جانے والے دہشت گردی کی حمایت کے الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرگرم رہا ہے۔
عادل الجبیر نے واشنگٹن میں سعودی عرب کے وزیر دفاع کے ہمراہ امریکہ کی ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کے انتہا پسند گروہوں میں سعودی شہریوں کی موجودگی کے بارے میں بیان پر ردعمل ظاہر کیا اور دعوی کیا کہ سعودی عرب پر ایک ایسے وقت میں انتہا پسند گروہوں کی حمایت کا الزام لگایا جا رہا ہے کہ جب وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوسروں سے زیادہ کوششیں کر رہا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے کہ دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے اورانھیں پھیلانے میں ان کے ملک کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، دعوی کیا کہ کوئی بھی دہشت گردی کے خلاف سعودی عرب کی جنگ اور دہشت گردی کی مالی مدد کے عمل کا مقابلہ کرنے کے بارے میں شک نہیں کر سکتا۔
عادل الجبیر ایک ایسے وقت میں سعودی عرب کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے حقیقی ممالک کی صف میں شامل کر رہے ہیں کہ جب وہ دہشت گردانہ اقدامات کے بارے میں مخالف موقف اختیار کرتے ہیں اور اس سلسلے میں جاری ہونے والی رپورٹوں کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے واقعات کے بارے میں رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اس میں ملوث تھا۔ امریکہ کی جاسوسی کی تنظیم سی آئی اے کی دستاویزات بالکل واضح کر دیتی ہیں کہ سعودی عرب پر گیارہ ستمبر کے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ لیکن عادل الجبیر ان دستاویزات کو ایک دعوے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں اور امریکہ کے لیے اس واقعہ کے حقائق واضح و روشن ہونے کے لیے تعاون کرنے کے بجائے اپنے دیرینہ اتحادی کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
سعودی عرب کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعویدار کی حیثیت سے حتی امریکی حکومت سے توقع ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے حالات میں ملکوں کو حاصل تحفظ کو باقی رکھے اور اگر ایسا نہ ہوا تو دوسرے ملکوں میں امریکہ کو حاصل تحفظ خطرے میں پڑ جائے گا۔
عادل الجبیر ایسی حالت میں گیارہ ستمبر کے واقعات میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کے بارے میں قانون کی منظوری کے لیے امریکی کانگریس کی کوششوں پر سیخ پا ہیں کہ جب سعودی عرب انتہاپسندی اور تکفیری سلفیت کو فروغ دینے میں براہ راست ملوث ہے۔
سعودی عرب کی نگرانی میں چلنے والے وہابی مدرسے دنیا میں انتہاپسندی کو پھیلانے والے اصلی مراکز ہیں اور ان مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ نے ماضی میں طالبان اور القاعدہ کے نام سے تشدد اور دہشت گردی کو فروغ دیا تھا اور آج ان میں داعش کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
پہلے طالبان اور القاعدہ اور اب داعش اور جبہۃ النصرہ کے نام سے انتہا پسندی کی لہر میں اضافہ امریکہ سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون میں سعودی عرب کی مفاد پرستانہ پالیسی کا نتیجہ ہے کہ یہ دونوں ملک نعرے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لگاتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں ان کی حمایت اور پشت پناہی کرتے ہیں۔
امریکی ہتھیار اور سعودی ڈالر دہشت گردی کے خلاف حقیقی جنگ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ وہ بات ہے کہ عادل الجبیر جس پر توجہ دیے بغیر اپنے خیال باطل میں، سعودی عرب کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک ذمہ دار ملک قرار دیتے ہیں اور اس میں شک کرنے والوں کو جوابی اقدام کی دھمکی دیتے ہیں۔
سعودی عرب کے وزیردفاع محمد بن سلمان کا یہ متنازعہ بیان کہ سعودی عرب ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم کے بیس فیصد اخراجات ادا کر رہا ہے، گیارہ ستمبر کے واقعات کی خفیہ دستاویزات پر ریاض کے انتہائی طیش اور غصے کو ظاہر کرتا ہے اور اسے سعودی عرب کو دہشت گردی کا حامی قرار دینے کی کوششوں کے مقابل جوابی اقدام سمجھا جا رہا ہے۔