میانمار کے مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری
میانمار کے محروم اور در بدر مسلمانوں کے خلاف جرائم ، ان پر تشدد ان کی توہین اور ان کی عزت نفس پامال کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے کہ جس پراقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے بھی ردعمل ظاہر کیا ہے-
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق اس ادارے نے اس بارے میں ایک رپورٹ تیار کر کے اسے شائع کیا ہے کہ جس میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی اقلیت کے حقوق کی پامالی من جملہ ان کے شہری حقوق سے محروم کئے جانے ، ان سے بیگار لینے اور ان کے ساتھ جنسی تشدد کی خبر دی گئی ہے-
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ انسانیت کے خلاف جرم کے تحت مسلمانوں پر بڑے پیمانے پر ایک منظم حملہ کیا جائے گا-
بعض سیاسی ماہرین کا سوال ہے کہ حکومت میانمار اس ملک کی مسلمان قوم کو شہریت کیوں نہیں دے رہی ہے ؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ میانمار کی نئی حکومت آخر ظلم و تشدد اور انسانیت دشمن رویے کی بنا پر کئ برسوں سے برسراقتدار فوجیوں کی حکومت کی بساط لپیٹ دیئے جانے سے عبرت کیوں نہیں حاصل کرتی-؟
نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے باوجود کہ جس نے وفاقی قومی حکومت کی تشکیل کا نعرہ دیا تھا، اب اقتدار میں آنے کے بعد چالیس لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کو ان کے شہری حقوق دینے سے اجتناب کر رہی ہے یہاں تک کہ انھیں اقلیت تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں ہے- کیا یہ عمل قومی وفاق کی تشکیل سے تضاد نہیں رکھتا؟
میانمار کی نئی حکومت اب بھی اپنے اس پرانے حربے پر ہی تاکید کرتی ہے کہ میانمار کے مسلمان ، بنگلادیش سے میانمار میں داخل ہوئے ہیں-جبکہ اس بات کے بہت سے ثبوت و شواہد موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کی جڑیں میانمار میں ہی ہیں - اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلامی تعاون تنظیم ، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے مختلف ادارے اور تنظیمیں ، میانمار کے مسلمانوں کے برحق ہونے اور ان کے شہری اور اس سے بھی بڑھ کر ان کے انسانی حقوق کے حصول کی کوششیں نہ کرتیں-
اقوام متحدہ نے گذشتہ دو برسوں میں ہمیشہ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ابتر حالت کے بارے میں خبردار کیا ہے -
اسلامی تعاون تنظیم نے بھی اپنے اہم اجلاسوں میں میانمار کے مسلمانوں کی صورت حال کے جائزے کو ایک اہم ترجیح اور درحقیقت اپنے کام کے ایک اہم حصے کے طور پر اعلان کیا-
امریکی صدر باراک اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری نے بھی خود کو انسانی حقوق کا پابند ظاہر کرنے کے لئے میانمار کے مسلمانوں اور ان کی زندگی کے ابتر حالات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا-
اس کے باوجود ایسا نظر آتا ہے کہ میانمار کے معاشرے میں مسلمانوں کی اس ابتر حالت نے آزاد انسانوں کے ضمیر کو گلا و شکوہ کرنے پر مجبور کیا ہے - حقیقت پسندی یہ ہے کہ اس کے اسباب کا پتہ لگانا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں چار سال پہلے تک تمام نسل و قوم و مذاہب سیاسی گھٹن اور فوجیوں کے انسانیت سوز سخت قوانین کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے وہاں امتیازی سلوک اچانک دوبارہ سماج کے سب سے مظلوم طبقے یعنی مسلمانوں سے کیوں روا رکھا جانے لگا-
اسی بنا پر بہت سے تجزیہ نگار ایسی شخصیت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ جو مذہبی اور نسلی امتیاز اور ظلم و استبداد کے خلاف جد و جہد کرنے والا سب سے نمایاں چہرا تھا اور وہ آنگ سان سوچی کے سوا کوئی نہیں ہے کہ جو فوج کے دور حکومت میں ہمیشہ میانمار کے شہریوں کے حقوق کی بحالی ، آزادی اور انسانی حقوق کے لئے سرگرم عمل رہیں اور اس کے لئے بھاری قیمت چکائی-
لیکن اس وقت آنگ سان سوچی سیاسی آزادی کو ختم اور میانمار کے مسلمانوں کے شہری حقوق کو پامال کرنے والوں میں سمجھی جارہی ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل و مذہب اور قوم سے کیوں نہ ہو-
درحقیقت انسانی حقوق کے ہائی کمشنر یا کسی بھی ادارے کو آزادی و انسانی حقوق کی اس معروف شخصیت سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ قومی وفاق قائم کرنے کے لئے امتیازی سلوک کا سلسلہ ختم کریں-
آنگ سان سوچی ہر شخص سے زیادہ بہتر جانتی ہیں کہ بے شک ، تاریخ سیاست و حکومت کے میدان میں ان کی کارکردگی کا فیصلہ ضرور کرے گی-