بحرین میں شدت پسندانہ اور سرکوبی کی پالیسی جاری
بحرین میں ممتاز عالم دین آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کئے جانے کے بعد بحرینی وزارت انصاف نے مبینہ دہشت گردی کو وسعت دینے کی زمین ہموار کئے جانے کے الزام میں جمعیت الوفاق کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی عمل میں تیزی لانے پر زور دیا ہے۔
بحرین کی آل خلیفہ کی ظالم شاہی حکومت کے خلاف بحرینی عوام کے احتجاج کا سلسلہ چودہ فروری سنہ دوہزار گیارہ سے شروع ہوا اورعوامی احتجاج کے بالکل شروع میں ہی آل خلیفہ کے اندر یہ بات اہم مسئلے میں تبدیل ہوگئی کہ احتجاجی مظاہرین کے سلسلے میں کونسا طریقہ اختیار کیا جائے؟
بحرین کے ولیعہد کی سربراہی والے گروپ کا یہ مطالبہ تھا کہ اس سلسلے میں سیاسی طریقہ اختیار کرتے ہوئے مظاہرین کے مطالبات پر توجہ دی جائے جبکہ بحرینی وزیر اعظم کی سربراہی والے گروپ نے شدت پسندانہ طریقۂ کار اور مظاہرین کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی سرکوبی کا مطالبہ کیا۔
بالآخر، سعودی عرب کی طرف سے وزیراعظم کی سربراہی والے گروپ کے شدت پسندانہ طریقے کی حمایت کے بعد آل خلیفہ کی ڈکٹیٹر حکومت نے مقابلے اور مظاہرین کی سرکوبی کے طریقۂ کار کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چونسٹھ مہینوں کے دوران بحرین میں پیدا ہونے والے بحران کے خاتمے کے لئے کوئی ٹھوس سیاسی راہ حل اختیار نہیں کی گئی ہے۔
آل خلیفہ حکومت کا ایک اہم ترین شدت پسندانہ طریقہ بحرینی مظاہرین اور اہم شخصیات، خاص طور سے علمائے بحرین، کی شہریت منسوخ کرنے سے عبارت ہے۔ بحرین کی آبادی کے ڈھانچے میں تبدیلی کی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے شہریت کے حق کی منسوخی کی پالیسی اپنائی گئی ہے جس سے آل خلیفہ حکومت نے گزشتہ ایک عشرے کے دوران بہت فائدہ اٹھایا ہے۔
اسی سلسلے میں حال ہی میں آل خلیفہ کی ڈکٹیٹر حکومت نے ممتاز شیعہ عالم دین آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت کو منسوخ کردیا ہے۔ آل خلیفہ حکومت کے اس اقدام پر بہت زیادہ منفی ردعمل سامنے آیا ہے اور آل خلیفہ حکومت کے ایک اہم ترین حامی امریکا نے بھی اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بہرحال، بحرینی حکومت اس طرف سے مطمئن ہے کہ غیر علاقائی لیڈروں اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کی طرف سے اس کے اس اقدام کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جائے گا اس لئے اس نے شدید احتجاج اور رد عمل کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے اقدام کے تحت جمعیت الوفاق کو کالعدم قرار دیئے جانے کے عمل میں تیزی لانے پر زور دیا ہے۔
بنابریں، بحرین کے وزیر انصاف شیخ خالد بن علی بن عبداللہ آل خلیفہ کی تاکید کے بعد بحرین کی عدالت عالیہ نے چھ اکتوبر کو ہونے والی کارروائی کو تقریبا" تین ماہ پہلے یعنی چوبیس جون کو ہی انجام دے کر اعلان کیا ہے کہ جمعیت الوفاق کے دفاتر بند کئے جانے، اس کا مال و اسباب ضبط کئے جانے اور اس پارٹی کی سرگرمیوں پر پابندی سے متعلق فیصلے کا اعلان چار ستمبر کو کیا جائے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ بحرینی حکومت نے جمعیت الوفاق کو کالعدم قرار دیئے جانے سے متعلق فیصلہ سعودی حکومت سے مشورہ کرنے کے بعد اور جمعیت اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دے کر مصریوں کی حمایت یافتہ اس پارٹی کو کالعدم قرار دیئے جانے کے مصری حکومت کے اقدام کو اپنے لئے نمونۂ عمل بنا کر کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جس طرح مصر میں السیسی حکومت نے اخوان المسلمین کے رہنماؤں کو لمبی قید کی سزائیں بلکہ پھانسی کی سزائیں بھی سنائی ہیں، آل خلیفہ حکومت نے بھی جمعیت الوفاق کے سیکریٹری جنرل شیخ علی سلمان کو نو سال قید کی سزا سنائی ہے۔
بہرحال، اہم بات یہ ہے کہ بحرینی حکومت نے مظاہرین اور جمعیت الوفاق جیسی عوامی پارٹیوں اور تنظیموں کے خلاف جتنا شدت پسندی سے کام لیا ہے بحرین کے مظاہرین، سیاسی شخصیات اور گروپوں کا عزم حکومت مخالف احتجاج جاری رکھنے کے لئے مزید مضبوط ہوا ہے۔