Jun ۲۵, ۲۰۱۶ ۱۷:۵۴ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف امریکی دشمنی جاری

ایٹمی معاہدے کے بعد بھی امریکہ نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے اور ایران کے خلاف دشمنانہ اقدامات کررہا ہے۔

امریکی ڈیموکریٹک سینیٹرکرسٹوفراینڈریوکونز نے امریکی سینیٹ میں ایران کے ساتھ جامع مشترکہ ایکشن پلان کو ایک سال گذرنے کے موقع پر ایک نشست میں کہا کہ ایران بدستور خطرناک اور انقلابی ہے اور آئندہ دہائیوں کے لئے ممکنہ ایٹمی خطرہ شمار ہوتا ہے۔

امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں یہ اجلاس ایک سال گذرنے پرایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے جائزہ کے عنوان سے ہوا۔اس امریکی سینیٹر نے کہا ہے کہ جامع مشترکہ ایکشن پلان نے ایران کو نہیں بدلا ہے بلکہ صرف ایران کے ایٹمی پروگرام کو کنٹرول کیا ہے۔

امریکی سنیٹر کوسٹوفر کونز نے جو امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سینئر رکن اور جامع مشترکہ ایکشن پلان کے نام نہاد حامیوں میں شمار ہوتے ہیں، ایران پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں سے دور رکھنے کےلئے اسکی مسلسل نگرانی کرنی ہوگی اور یہ ذمہ داری صرف موجودہ امریکی صدر کے کندھوں پر ہیں نہیں پڑنی چاہیے بلکہ آئندہ کے صدر، انٹلیجنس ایجنسیوں، اور کانگریس کو بھی مستقبل کے لئے یہ ذمہ داری سنبھالنی چاہیے۔

امریکہ عدم استحکام پیدا کرنے اور اشتعال انگیز سرگرمیوں کے بہانے جنہیں وہ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے ہٹ کر سرگرمیاں قراردیتا ہے ایران پر نئی پابندیاں لگانے کی کوشش میں ہے۔اس سلسلے میں امریکہ کی وزارت خزانہ نے ایٹمی پروگرام کے علاوہ بھی ایران پر پابندیاں لگائی ہیں جو ایٹمی پابندیوں کے خاتمے کے باوجود آج بھی جاری ہیں۔

یاد رہے امریکہ میں ایک خصوصی گروپ نے دوہزآر آٹھ میں ایران کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کردیا تھا جو مالی لحاظ سے خطرہ شمار ہوتے ہیں اور بینکوں کو ایران کے ساتھ معاملہ کرنے کی بابت خبردار کیا تھا۔ گذشتہ روز خبری ذرایع نے اعلان کیا تھا کہ امریکی حکومت نے عارضی طور پر ایران کو ان ملکوں کی فہرست سے نکال دیا ہے جن پر کالے دھن کو سفید بنانے اور دہشتگردی کی مالی حمایت کرنے کا الزام ہے۔ اس کے باوجود کرسٹو فرکونز نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے قانون کی مدت میں توسیع کی جائے اور پابندیوں کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے سنجیدگی سے کام کیا جائے۔

امریکہ کی نظر میں ایران ایک ذمہ دار حکومت نہیں ہے۔ امریکہ کے اس سینیٹر کے بیانات بھی اسی نظریے کو بیان کرتے ہیں۔ فلسطینی اور یمنی قوم کی حمایت کرنا، عراق اور شام میں دہشتگردگروہوں سے مقابلہ کرنا، نیز ایران کے بیلسٹک میزائل امریکہ کے خیال میں ایران کو ایک غیر ذمہ دار ملک بنادیتے ہیں۔

یہ پروپگینڈے ایسے عالم میں ہورہے ہیں کہ ایران نے جامع مشترکہ ایکشن پلان کے بعد اپنے تمام وعدوں پرعمل کیا ہے جبکہ اس کے مدمقابل ملکوں بالخصوص امریکہ نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں اور ایران کے خلاف بعض پابندیاں بدستورعائد ہیں اور بیرونی بینک ایران کے ساتھ کام نہیں کررہے ہیں۔

امریکی حکومت اعلان کرتی ہے کہ ایران کے ساتھ بینکوں کے لین دین میں کوئی مشکل نہیں ہے لیکن عملا ایسا کام کرتی ہے کہ مختلف ممالک کے بینکوں کو ایران کے ساتھ معاملے کرنے کی جرات نہ ہو۔

مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کی بدعھدی وعدہ خلافی اور دشمنی صرف جامع ایکشن پلان تک ہی محدود نہیں ہے اور یہ دشمنی امریکہ کے حکام کے مواقف اور بیانات سے واضح ہوتی رہتی ہے۔

یہ نظریات ایران کے خلاف امریکہ کی گہری دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں اور رہبرانقلاب اسلامی کے بقول اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ کی ذات نہیں بدلی ہے اور ایران سے مقابلے کے سلسلے میں امریکہ میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن میں کوئی فرق نہیں ہے۔

 

ٹیگس