آل خلیفہ آل سعود کی پیرو
آل خلیفہ کی حکومت پانچ برسوں سے بحرینی قوم کی پرامن انقلابی تحریک کو بھرپور تشدد سے کچل رہی ہے
آل خلیفہ کی حکومت جو پانچ برسوں سے بحرینی قوم کی پرامن انقلابی تحریک کو بھرپور تشدد سے کچل رہی ہے اور اس سلسلے میں آل سعود کی فوج سے بھی مدد لے رہی ہے بزعم خود ایران پر بحرین میں مسلحانہ جھڑپیں کرانےکی کوشش کا الزام لگارہی ہے۔
آل خلیفہ کی مشاورتی کونسل کے نائب صدر جمال فخرو نے دعوی کیا ہے کہ ایران پہلے سے معین شدہ اھداف کا پروگرام رکھتا ہے جن میں ایک ھدف خلیج فارس کے علاقے پر قبضہ کرنا ہے اور وہ یہ کام بحرین سے شروع کرنا چاہتا ہے۔
آل خلیفہ کی حکومت کے اس عھدیدار نے اپنے خیال باطل میں اسلامی جمہوریہ ایران کو عرب قوموں کے لئے خطرہ قراردیا ہے اور یہ بھی دعوی کیا ہے کہ ایران علاقے کے بعض ملکوں میں اپنے حامیوں کے لئے ہتھیار بھیجتا ہے۔
جمال فخرو نے ایسے عالم میں ایران پر بحرین میں مداخلت کرنے اور اس ملک میں مسلحانہ جھڑپیں کرانے کے الزامات لگائے ہیں کہ سعودی عرب نے سرکاری طور پر بحرین میں اپنے فوجی اور فوجی سازو سامان بھیج رکھا ہے اور آل خلیفہ کی فورسز کےساتھ مل کر بحرینی قوم کی پرامن تحریک کو کچلنے میں مشغول ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے سیاسی راہ حل اپناتے ہوئے بحرین کے تمام گروہوں کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دے کر بحرین کے مسئلے کو مفاہمت و مصالحت سے حل کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ خلیج فارس جیسے حساس علاقے میں امن و استحکام قائم رکھنا اسلامی جمہوریہ ایران کی اولین ترجیح ہے۔اسی وجہ سے ایران کا نظریہ ہے کہ مظاہرین کے ساتھ تشدد سے پیش آنا اور انقلابیوں کو سرکوب کرکے انہیں جیل میں ڈالنا نیز بحرین میں سعودی عرب کی فوجی موجودگی علاقے کے امن و امان اور عوام کے حق میں نہیں ہے۔
ایران کی جانب سے بحرینی عوام کے انقلاب کی حمایت عوام کے مطالبات کی حمایت ہے جبکہ آل خلیفہ کے حکام اپنی قوم کے مطالبات کا مناسب جواب دینے کے بجائے دوسرے ملکوں پر الزام لگارہے ہیں اور اس طرح سے اپنے ملک میں حقیقت سے فرار کررہے ہیں اور انہوں نے ایران کے خلاف سعودی عرب کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔
سعودی عرب نے ایران کی جانب سے بزرگ اور مجاہد عالم دین شیخ نمر باقر النمر کی سیاسی اور اخلاقی حمایت اور ان کی سزائے موت پر ایرانی عوام کے رد عمل کی بنا پر خود کو ایران کی مخالفت کے مرکز میں تبدیل کردیا ہے۔آل سعود نے یکطرفہ طورپرایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں۔
آل خلیفہ اور سعودی عرب کی حکومتوں کا موجودہ موقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران عرب ملکوں کے مقابل صف آرا ہوچکا ہے جبکہ ایران علاقے میں ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے علاقے کے حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے لیکن بحرین اور سعودی عرب جیسے ممالک اپنے عوام کی مشکلات حل کرنے کی بھی توانائی نہیں رکھتے اور خود کو ان کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔
بحرین میں دوہزار گیارہ سے علماء کی قیادت میں عوامی انقلاب شروع ہوا تھا اور یہ مکمل طرح سے داخلی اور بحرینی عوام کے مطالبات پر مبنی تحریک ہے، بحرینی عوام اپنے حق خود ارادیت اورعوامی جمہوری حکومت پر تاکید کررہے ہیں۔
آل خلیفہ نے آل سعود کے ساتھ اتحاد کرکے اسی کی پالیسیوں پرعمل کرنا شروع کردیا ہے اور اس طرح اس نے علماء اور بااثر اداروں کے خلاف جنگ شروع کردی ہے۔ جمعیت اسلامی وفاق ملی بحرین کے سربراہ شیخ علی سلمان کو سزائے قید دینا، اور انکی قید کی سزا کو چار سے نوسال تک بڑھا دینا، بعض سیاسی تنظیموں پر پابندی لگادینا، انقلاب بحرین کے معنوی قائد آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت سلب کرلینا ایسے اقدامات ہیں جن سے پرامن تحریک کے خلاف آل خلیفہ کی تشدد آمیز پالیسیوں کے اوج پر پہنچنے کا اندازہ ہوتا ہے۔