ایران کے خلاف غیر ایٹمی پابندیوں میں شدت امریکی ایجنڈے کا حصہ
ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے ماسٹر مائنڈ نے کہا ہے کہ امریکہ کی آئندہ حکومت کو علاقائی اقدامات اور انسانی حقوق کے میدان میں ایران پرغیر ایٹمی پابندیوں میں شدت لانے کے بارے میں سوچنا چاہئے-
واشنگٹن میں ڈیموکریسی کے حامی ادارے ایف ڈی ڈی کے چیف ایگزیکٹیو اور ایران کے خلاف پابندیوں کے ماسٹر مائنڈ مارک ڈوبوویٹز نے جمعے کو تل ابیب میں "ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے ایک سال اور اس کے علاقائی ، اقتصادی اور ایٹمی نتائج " کے زیرعنوان منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں اس موضوع پر تاکید کی-
انھوں نے اپنے بیانات میں آئندہ امریکی صدر کو کچھ سفارشات بھی کیں اور کہا کہ ہیلری کلنٹن امریکہ کی صدر منتخب ہوئیں تو انھیں ہماری نصیحت یہ ہوگی کہ ایران میں تبدیلی پیدا کرنے کی اسٹریٹیجک میں اسلامی جمہوریہ کے نظام کے سربراہوں کے خلاف شدید سیاسی اقدامات کو بھی شامل کیا جائے-
ڈویوویٹز نے یاد دہانی کرائی کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر دستخط کے وقت سے ہی اوباما حکومت نے ایران کے خلاف انسانی حقوق کے سلسلے میں کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے - اس سلسلے میں ڈویوویٹز کی نصحیت یہ تھی کہ امریکہ کے آئندہ صدر ایران کے خلاف سخت غیر ایٹمی پابندیاں عاید کریں -
انھوں نے کہا کہ بڑے مالی اداروں کے ابھی تک ایران میں واپس نہ آنے کی وجہ ایران کے بارے میں کلی پابندیوں کا ہونا یا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ امریکی پابندیوں کی طاقت بالخصوص ثانوی پابندیاں ہیں کہ جو مالی اداروں کو ایران میں داخل ہونے کی راہ میں مضبوط دیوار کھڑی کئے ہوئے ہیں-
ایف ڈی ڈی فاؤنڈیشن نے کہ جو گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد قائم کیا گیا ہے اور اس کی سرگرمیوں کا محور خطرات کے مقابلے میں امریکہ کا دفاع بتایا گیا ہے عملی طور پر ڈیموکریسی کے فروغ کے پرچم تلے ایران کی عالمی شبیہ خراب کرنے کے فاؤنڈیشن میں تبدیل ہو گیا ہے-
ایران پر پابندیوں میں شدت کے بارے میں ڈیوویٹز کے بیانات ایسی حالت میں سامنے آئے ہیں کہ انھوں نے تقریبا پانچ سال پہلے"سانفرانسیسکو اگزمینر" کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کے ممالک نے مغربی پابندیوں پر توجہ نہیں دی اور تہران کے ساتھ اپنے تعلقات بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں-
انھوں نے کہا تھا کہ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان پابندیوں کا ایران پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے-
اس کے باوجود اس طرح کے بیانات مشترکہ جامع ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے امریکہ کی زہریلی پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں-
امریکہ کی اس پالیسی پر ایران کی وزارت خارجہ نے با رہا احتجاج کیا ہے لیکن امریکی حکام نے ہر بار یہ جواز پیش کرتے ہوئے کہ امریکہ کے مالی قوانین اپنی خاص پیچیدگیوں کے حامل ہیں، پابندیوں کی منسوخی کے بعد حالات کے معمول پر آنے کا وعدہ کرتے ہیں تاہم عملی طور پر مختلف بہانوں سے پابندیوں کے برقرار اور جاری رکھنے کے اقدامات کرتے ہیں-
یہ مسئلہ اس وقت امریکہ کے صدارتی انتخابات کے ممکنہ امیدواروں کی انتخابی مہم کا حصہ بن گیا ہے - امریکہ میں صیہونی لابی بھی کہ جو ان انتخابات میں فیصلہ کن کردار کی حامل ہے ، ان بحثوں پر خاص توجہ دے رہی ہے جبکہ امریکہ، مشترکہ جامع ایکشن پلان میں کہ جس پر سلامتی کونسل کی منظور شدہ قرار داد کے مطابق تمام فریقوں کو پوری طرح عمل درآمد کرنا چاہئے رخنہ اندازی اور روڑے اٹکانے کے سلسلے میں ذمہ دار ہے اور اسے اس کا جواب دینا پڑے گا-