Jul ۰۸, ۲۰۱۶ ۱۹:۲۰ Asia/Tehran
  • وارسا میں نیٹو کا سربراہی اجلاس

پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں نیٹو کا دو روزہ سربراہی اجلاس شروع ہوچکا ہے

 اس نشست میں روس کے ساتھ تعلقات اور دہشتگردی سے مقابلے کے موضوعات پر گفتگو کی جائے گی۔ اس اجلاس میں نیٹو کے اٹھائیس سربراہان شرکت کررہے ہیں۔پولینڈ کے صدر آندرژی دودا نے اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرکزی اور مشرقی یورپ میں نیٹو کی دفاعی اور جنگی توانائیوں میں اضافہ کئے جانے پر تاکید کی۔

نیٹو کے ڈپٹی سکریٹری جنرل الیگزینڈر ورشبو نے بھی اس نشست کے آغاز میں کہا کہ نیٹو روس سے بھرپور مقابلہ جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو اب روس سے طویل مدت اسٹراٹیجیک مقابلے میں داخل ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو اپنی نئی پالیسیاں ان ہی اصولوں پر بنائے گی۔ نیٹو کے ڈپٹی سکریٹری جنرل نے کہا کہ نیٹو اپنے مشرقی ملکوں کی سرحدوں کو مضبوط بنائے گی اور نیٹو کے یہ اقدامات جنگ سرد کے اقدامات سے الگ ہونگے۔

وارسا میں نیٹو کا سربراہی اجلاس بڑے حساس حالات میں ہورہا ہے۔ اس وقت نیٹو اور روس کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اورنیٹو اور روس کے تعلقات نچلی ترین سطح پر آگئے ہیں۔ دوہزار چودہ سے اب تک نیٹو نے یورپ کے مشرقی ملکوں میں اپنی موجودگی کو استحکام بخشا ہے۔

یہ اقدام بالخصوص بالٹیک اور بحیرہ سیاہ کے ملکوں میں کیا گیا ہے اور اس کے لئے یہ بہانہ بنایا گیا ہے کہ روس یوکرین میں مداخلت کررہا ہے۔ مشرقی یورپ میں نیٹو ایسے عالم میں اپنی فوجی موجودگی بڑھا رہا ہے کہ روس نے اس بابت بارہا انتباہ دیا ہے۔ اسی تناظر میں وارسا اجلاس میں نیٹو کے سربراہان پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت بلقان کے علاقے، پولینڈ اور رومانیہ میں نیٹو کی افواج کی تعداد میں اضافہ کرنے کی منظوری دیں گے۔ اس مسئلے پر بھی روس نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے جواب میں روس اپنی مغربی سرحدوں پراپنے فوجیوں کی تعداد بڑھا دے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتین کی نظرمیں نیٹو بلقان کےعلاقے اورپولینڈ میں اپنے فوجی استحکامات بڑھا کر مشرقی یورپ میں فوجی تعاون بگاڑنا چاہتا ہے۔

یوکرین کے بحران اور روس اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی آنے سےقبل روس اور نیٹو، نیٹو کونسل کے تحت ایک دوسرے سے تعاون کررہے تھے۔ یہ کونسل دوہزار دو میں تشکیل دی گئی تھی اور اس کی آخری نشست جون دوہزار چودہ میں منعقد ہوئی تھی، اس وقت سے لے کر اب تک روس اور نیٹو کے درمیان مذاکرات بند ہیں البتہ مئی دوہزار سولہ میں برسلز میں اس کونسل کا اجلاس ہوا تھا لیکن اس اجلاس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا بلکہ یہ اجلاس فریقین کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں ناکام رہا۔

دوسری طرف مغرب، روس کی مخالفت کے باوجود نیٹو کو مشرق کی طرف بڑھا رہا ہے، اس سلسلے میں مغرب کا آخری اقدام مونٹے نیگرو کو نیٹو میں رکنیت دینا ہے۔ روس نے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی ہے۔روس کا کہنا ہےکہ مغرب کے اس اقدام سے یورپ میں کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔روس کا موقف یہ ہے کہ یورپ میں نیٹو کی توسیع سے یورپ کی سکیورٹی پر منفی اثرات پڑیں گے۔

ایک اور مسئلہ جو وارسا میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں زیر غور آئےگا دہشتگردی اور اس میں پھیلاو نیز دہشتگردی سے نیٹو کو لاحق خطرات ہیں۔ اس مسئلے کی اہمیت دوہزار پندرہ میں پیرس اور مارچ دوہزار سولہ میں برسلز کے حملوں کے بعد مزید بڑھ گئی ہے۔دراصل نیٹو گذشتہ دو برسوں میں روس کو یورپ کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اب وہ تکفیری دہشتگردی جیسی تلخ حقیقت سے روبرو ہوچکی ہے البتہ تکفیری دہشتگردی میں فروغ فرانس اور برطانیہ جیسے نیٹو کے رکن ممالک کی حمایت کا مرہون منت ہے۔ ان ملکوں نے شام میں دہشتگرد گروہوں کی حمایت کرکے تکفیری دہشتگردی کو بڑھاوا دیا ہے۔ چونکہ تکفیری دہشتگردی سے یورپی ممالک اور روس کو شدید خطرہ لاحق ہوچکا ہے کیونکہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش میں ان ملکوں کے ہزاروں شہری شامل ہیں۔

نیٹو نے پہلے اس خطرے سے مقابلہ کرنے کے لئے روس سے تعاون کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ وارسا نشست میں نیٹو کے سربراہاں اس بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔روس نے اس مسئلے پر تاکید کی ہے کہ مغربی ملکوں کو نیٹو کے پیرائے میں خیالی دشمن یعنی روس سے مقابلہ کرنے کے بجائے دہشتگردی سے مقابلہ کرنے کے لئے روس سے متحدہوجائے۔

 

 

ٹیگس