افریقی ممالک کے فوجی اتحاد کو بوکوحرام کے مقابلے میں درپیش مشکلات
سینٹرل افریقی ممالک کی افواج کے اتحاد کو دہشت گرد گروہ بوکوحرام کے مقابلے کے سلسلے میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔
خبری ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق بوکوحرام نے گزشتہ سات برسوں کے دوران شمال مشرقی نائیجیریا کے علاوہ اس کے بعض ہمسایہ ممالک میں بھی اثر و نفوذ حاصل کر لیا ہے۔ نائیجیریا اور اس کے ہمسایہ ممالک جیسے نائیجر، کامرون، چاڈ اور بنین نے، کہ جو چاڈ جھیل کے ساحلی ممالک شمار ہوتے ہیں، گزشتہ برس دہشت گرد گروہ بوکوحرام کے مقابلے کے لئے اتحاد تشکیل دیا تھا۔ اس اتحاد میں خطے کے آٹھ ہزار سات سو فوجی شامل ہیں۔
اس علاقے کے فوجیوں کے آپریشنوں کے باوجود ابھی تک عام شہری بوکو حرام کے دہشت گردانہ حملوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اسٹیفن او برین نے بتایا ہے کہ شمال مشرقی نائیجیریا، شمالی کامرون، چاڈ اورنائیجر کے علاقوں سے تقریبا اٹھائیس لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ اسٹیفن او برین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو رپورٹ پیش کرنے کے علاوہ اس بات پر بھی تاکید کی ہے کہ اگر موجودہ صورتحال میں ان علاقوں کے لوگوں کی نجات کے لئے کوئی اقدام نہ کیا گیا تو بے گناہ انسانوں کے رنج و الم میں اضافہ ہوجائے گا۔
دریں اثناء نائیجیریا کے فوجی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ وہ شمال مشرقی نائیجیریا کے علاقوں کو اس دہشت گرد گروہ کے قبضے سے آزاد کرانے تک اپنا فوجی آپریشن جاری رکھیں گے۔ اس سب کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروہ بوکوحرام کے خلاف نائیجیریا، نائیجر، چاڈ اور کیمرون کے فوجیوں کی مشترکہ جنگ ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔
دہشت گرد گروہ بوکوحرام کے حملوں کی زد میں آنے والے علاقوں کے باشندوں نے چاڈ کی فوج سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ چاڈ کی فوج نے گزشتہ برس مالی کے شمالی علاقے میں مسلح دہشت گروہوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ مبصرین نے بھی چاڈ کی فوج کی اعلی فوجی صلاحیتوں کی تصدیق کی ہے۔ سینٹرل افریقی ممالک کے درمیان چاڈ کی فوج سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ لیکن اس کے باوجود چاڈ کی فوج کو بھی مالی کے شمال میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
مالی کی جنوبی سرحدوں پرمغربی افریقہ میں بوکو حرام کے خطرات کے علاوہ مالی اور شمالی لیبیا میں مسلح شورش پسندوں کے خطرات بھی پائے جاتے ہیں۔ بوکوحرام کے خلاف تشکیل پانے والے اس خطے کے فوجی اتحاد کے مالی ذرائع کی کمی بھی ایک بڑی مشکل ہے۔
نائیجیریا اوراس کے ہمسایہ ممالک اب تک سات سو ملین ڈالر کے ضروری مالی ذرائع حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ دہشت گرد گروہ بوکوحرام کے خلاف لڑنے والے اتحاد کو ایندھن کی بھی کمی کا سامنا ہے اور یہ چیز بجائے خود نائیجیریا اوراس کے ہمسایہ ممالک کے فوجیوں کی ناتوانی کا سبب بنی ہے۔ نائیجیریا افریقی ممالک میں سے سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک ہے لیکن اس کے باوجود تیل صاف کرنے والے کافی کارخانے نہ ہونے کے باعث اسے ایندھن کی کمی کا سامنا ہے حتی یہ ملک اپنے شہریوں کی ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی ایندھن درآمد کرنے پر مجبور ہے۔
بعض مبصرین بوکوحرام کے ساتھ نائیجیریا کی فوج کی جنگ کے اعصابی جنگ میں تبدیل ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور اسے اس دہشت گرد گروہ کی استقامت کی ایک وجہ قرار دیتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ علاقائی ممالک کے درمیان ضروری ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے بوکوحرام کے ساتھ خطے کی مشترکہ فوجوں کا مقابلہ مشکل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں نائیجیریا کی حکومت اپنی فوجی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کر کے سیکورٹی خطرات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
محمد عثمان کو اس ملک کی خفیہ ایجنسی کا سربراہ مقرر کیا جانا اور فوجی آپریشن کا رخ شمال مشرقی علاقوں کی جانب موڑ دینا حالیہ تبدیلیوں کا ایک حصہ شمار ہوتا ہے۔ کیمرون کی حکومت بھی حفاظتی انتظامات سخت کرنے اور نائیجیریا کی سرحدوں کے پاس واقع شمالی صوبے کے صدر مقام ماروا میں تقریبا چار سو سرحدی محافظوں کی تعیناتی کے ذریعے دہشت گرد گروہ بوکوحرام کے عناصر کی دراندازی کی روک تھام کی کوشش کر رہی ہے۔
افریقی ممالک کے سربراہوں کو امید ہے کہ وہ بوکوحرام کے خلاف جنگ کے لئے کافی مالی ذرائع اور ضروری طاقت حاصل ہونے تک نئی تدابیر اختیار کرکے اس دہشت گرد گروہ کے مقابلے میں استقامت اورعام شہریوں کی جانوں کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوں گے۔